کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 6
خزینۃ الاصفیاء مرتہ مفتی غلام سرور لاہور، تذکرۃ الکرام اور تاریخ فرشتہ میں پائے جاتے ہیں ۔ برٹش میوزیم لندن میں جو نسخہ دیوانِ شاہ نعمت اللہ ولی رحمہ اللہ ہے وہ ۱۹۳۹ء میں پٹنہ کے کسی پریس کا شائع شدہ ہے۔ نیز طہران، (ایران) والا نسخہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن کی لائبریری میں محفوظ ہے۔ (۱۲۷۶ھ) اس دیوان میں مناقب شاہ نعمت اللہ ولی کے عنوان سے شاہ صاحب کی مختصر سی سوانح عمری بھی درج ہے۔ اس کے مطابق شاہ نعمت اللہ ولی رحمہ اللہ کبھی برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے اور نہ ہی ان کا مزار بھارت یا پاکستان میں کہیں موجود ہے۔ البتہ ان کی اولاد سلطان احمد شاہ بہمنی کی دعوت پر ہند میں آئی تھی۔ شاہ نعمت اللہ ولی رحمہ اللہ ۷۳۰ھ میں حلب میں پیدا ہوئے، عراق میں نشوونما پائی۔ ۲۴ سال کی عمر میں مکہ معظمہ گئے یہاں سات سال قیام پذیر رہے اور شیخ عبد اللہ یافعی رحمہ اللہ (متوفی ۷۲۸ ہجری) کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر تصوف اور سلوک کی راہ طے کی اور ان کے مجاز بیعت (خلیفہ) مقرر ہوئے۔ اس کے بعد شاہ صاحب سمر قند ہرات اور یزد میں مقیم رہے اور ہر جگہ ان سے بڑی تعداد میں افراد بیعت ہوئے، آخر قصبہ امان میں جو کر مان سے ۸۷ میل دور ہے، مستقل سکونت اختیار کی اور اپنی زندگی کے آخری ۲۵ سال وہیں بسر کئے اور ۸۳۴ھ میں ۱۰۴ برس کی عمر میں وفات پائی۔ شاہ صاحب خود کبھی برصغیر میں تشریف نہیں لائے۔ البتہ ان کے کشف و کرامات کی شہرت دور دور تک پھیلی۔ جس سے وہ مختلف سلاطین کے حلقہ میں بڑے احترام اور عقیدت سے دیکھے جاتے تھے۔ انہی سلاطین میں دہلی کا حکمران احمد شاہ بہمنی بھی تھا۔ اسی کی درخواست پر شاہ صاحب کے پوتے میر نور اللہ دکن آئے۔ سلطان نے مخدوم کی حیثیت سے بڑی عزت و تکریم کی۔ شاہ نعمت اللہ ولی رحمہ اللہ کا اصل قصیدہ اس شعر سے شروع ہوتا ہے ؎ قدرت کردگارمی بینم حالتِ روزگارمی بینم اور وہ قصیدہ جو اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ اس کا اصل قصیدہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجودہ قصیدے کے فرضی ہونے کی داخلی شہادتیں خود اس قصیدہ میں موجود ہیں جو کہ شاہ صاحب کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ مثلاً جاپان کا ذِکر بار بار اس قصیدے میں آیا ہے حالانکہ اس ملک کا نام ’’جاپان‘‘ ۱۲۹۵ء میں پڑا تھا۔