کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 47
ہی نہیں بہت بڑی کافری بھی ہو گی۔ اس لئے ہم مکرر عرض کریں گے کہ قارئین اداریہ کو خود ایک دفعہ اور مزید پڑھ لیں ‘‘ ایک پنجابی کے محاورے کے مطابق ’’سوگلاں دی گل جے اک‘‘ اب آپ تفصیلی مگر مختصر لفظوں میں نمبروار ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔ 1. ہم نے قطعاً یہ نہیں لکھا کہ اسلاف کو تنظیم کی مطلقاً ضرورت نہیں تھی یا ان میں تنظیم ہی نہیں تھی، بلکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہماری طرح ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی۔ (ملاحظہ ہو ’’محدث‘‘ دسمبر ص ۳ سطر نمبر ۱) ’’ہماری طرح‘‘ پر غور فرمائیں گے تو اعتراض باقی نہیں رہے گا، کیونکہ آج کل جماعت سازی کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ اس میں شخصی اور گروہی مصالح، اغراض اور تکلفات کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ بہرحال اسلاف کی تنظیم ’’قدرتی‘‘ تھی، مصنوعی نہیں تھی۔ ان کی جماعت، جماعت سازی کی مہم کی رہین منت نہیں تھی۔ اس لئے ہم نے اسے ’’قدرتی تنظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو، محدث ص ۳ سطر ۵) 2. اس میں بھی تضاد نہیں ہے بلکہ اس ’’قدرتی تنظیم‘‘ کا ذِکر ہے جس کا نمبر ۱ میں ذکر کیا گیا ہے۔ 3. ہمارے نزدیک کتاب اللہ کی طرح ’’سنت رسول اللہ‘‘ بھی وحی الٰہی ہے۔ وہ ’’وحی متلو‘‘ ہے اور یہ ’’وحی غیر متلو‘‘۔ وحی الٰہی ’’ منشا الٰہی‘‘ کی ایک تعبیر ہے، جس کی غلامی ہمیں مطلوب ہے۔ لیکن معاصر فکر و نظر کو اس سے صرف اس لئے وحشت ہوئی ہے کہ ’’ادارہ فکر و نظر کو‘‘ حدیث اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں شرح صدر حاصل نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اعتراض نمبر ۳ کا محرّک بھی یہی انقباض ہے تو اس میں مبالغہ نہیں ہو گا، آپ بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش فرمائیں ۔ اُمید ہے آپ بھی ہم سے اتفاق ہی کرینگے۔ 4. سلفی والا اعتراض بھی خوب ہے، شاید موصوف ’’سلفی‘‘ کا مفہوم نہیں سمجھتے، ورنہ ’’سلفی‘‘ کو ’’حنفی شافعی‘‘ کے مترادف بالکل نہ قرار دیتے۔ ہمارے نزدیک سلفی سے مراد ’’علی سبیل البدلیۃ افرادِ اسلاف کی اتباع نہیں ہے بلکہ وہ جذبہ‘ اصول اور وطیرہ ہے جس میں کتاب و سنت کی پیروی کے لئے کسی ’‘غیر نبی‘‘ کی وساطت کو شرط اور وجہ کشش کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا اصل محرک قرآن حکیم اور اسوۂ حسنہ کی ذاتی کشش ہوتی ہے۔ کسی غیر مجوزہ فلسفہ اور حکمت کی سفارش نہیں ہوتی۔ اس انداز کو قرآن نے ’’اتبع سبیل من اناب