کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 46
بات جتنی سادہ ہے آپ نے اتنی بتنگڑ بنا دی مولانا عزیز زبیدی معزز معاصر ’’فکر و نظر‘‘ کا مندرجہ بالا تبصرہ، زیر نظر اداریہ کے مندرجات سے کم تعلق رکھتا ہے، زیادہ تر اس کا تعلق اپنے مفروضات سے ہے۔ اس لئے تفصیلی جواب سے پہلے ہم قارئین سے درخواست کریں گے کہ ہمارے اداریہ کو آپ ایک بار اور پڑھ لیں ، آپ کو اندازہ ہو جائے گا، کہ بات جتنی سادہ ہے، اتنا اس کو بتنگڑ کیوں بنا دیا؟ (ملاحظہ ہو ’’محدث‘‘ دسمبر ۷۰ء ص ۳ تا ۹) معزز معاصر کے تبصرہ کا حاصل یہ ہے۔ 1. ہمارا یہ نظریہ غلط ہے کہ ’’سلف صالحین‘‘ جماعت تو تھے مگر ان کو تنظیم کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ تھی اور جتنے ارکان دین ہیں وہ اس پر شاہد ہیں کہ ان کی پشت پر تنظیم تھی۔ 2. دوسری یہ کہ ہم نے اسلاف کو ’’فکر مربوط‘‘ ’’وحدت عملی‘‘ اور ’’احساسِ بصیر‘‘ کا حامل کہہ کر اپنے نظریہ کی تردید کر دی ہے کہ تنظیم نہیں تھی، گویا کہ بیان میں تضاد ہے۔ 3. ’’کتاب و سنت کی غلامی‘‘ کی اصطلاح مسلک اہلحدیث کے مخالف ہے کیونکہ وہ ’’اللہ کی غلامی کے سوا باقی ہر غلامی کو روح اسلام کے منافی تصور کرتا ہے۔ 4. حنفی، شافعی جیسی نسبتوں سے جان چھڑائی گو چھُوٹی پھر بھی نہیں کیونکہ سلفی کے معنی بھی وہی ہیں جو ایک شافعی اور حنفی کہلانے کے ہیں ، کیونکہ سنت بھی و اشخاص ہی تھے۔ 5. حدیث ’’لا تزال طائفة من امتي کا مصداق اہلحدیثوں کو بتانا صحیح نہیں ہے، معاصر کے نزدیک یہ ایک ادعا ہے اور جماعتوں کو دعا دی سے پرہیز کرنا چاہیے، دعووں سے نہیں ، عمل صالح سے اپنی عظمت کا ثبوت مہیا کرنا چاہئے، گویا کہ اب کے ہمیں معاصر نے ’’وعظ شریف‘‘ فرمایا ہے۔ نمبروار جتنے اعتراض آپ کے سامنے رکھے گئے ہیں ، اگر ان کو اداریہ کے سیاق میں رکھ کر پڑھا جائے تو اعتراض کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی، ہاں وہاں سے اچک کر ان کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ صرف اعتراض