کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 45
اپنے آپ کو سلفی اور محمدی اس وقت کہا جب دوسروں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی وغیرہ کہا، ایک ہی سانس میں خود کو تمام شخصی نسبتوں سے بالا تر بتانے کے بعد پھر اسی سانس میں خود کو محمدی اور سلفی بھی کہہ ڈالا، کون نہیں جانتا کہ سلفی کہلانے اور شافعی، حنفی وغیرہ میں سے کوئی نسبت اختیار کر لینے میں کوئی فرق نہیں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہم سب ہی ہمارے سلف صالحین میں تھے۔ اور تنہا سلفی کی نسبت قبول کرنے سے تمام ائمہ و سلف صالحین کی عقیدت کا طوقِ شخصیات مجموعی طور پر اپنے گلے میں ڈال لیا جاتا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ وہ اپنے سلفی یا محمدی کہلانے کی نسبت کو برحق قرار دینے کے لئے قرآن حدیث سے نص لاتے۔ بعد ازاں حدیث لا تزال طائفة من امتي ظاھرين علي الحق‘‘ کا مصداق اہل حدیث کو بتایا گیا ہے۔ اور اس ضمن میں ’’طائفة‘‘ کی دوراز کار لفظی بحث کی گئی ہے جو غور سے دیکھا جائے تو خود جماعتِ اہلِ حدیث کے حق میں نہیں جاتی، ہمارے خیال میں جماعتوں کو دعا دی سے گریز کر کے مصلحتِ عوام اور انسانیت کے مفاد کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہئے، عمل صالح سے اپنی عظمت و افادیت کا سکہ بٹھانا چاہیے، قرآن مجید کا صاف اعلان ہے: لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب، من یعمل سوءً یجز به۔۔۔۔۔ ’’اغنیاء پر ماسکین و غرباء کی ذمہ داری‘‘ سے معلق مولانا عبد الرؤف جھنڈا نگری نے مفید احادیث و آثار جمع کر دیئے ہیں ۔ حافظ نذر احمد صاحب کا ’’طبِ نبوی‘‘ بھی فائدہ سے خالی نہیں ، گو ان کے بعض خیالات سے ہمیں اتفاق نہیں ۔ اس رسالہ کی مجلس تحریر میں متعدد علماء کے علاوہ حافظ ثناء اللہ اور مولانا عبد السلام مدینہ یویورسٹی کے فضلاء بھی شامل ہیں ۔ ہماری درخواست ہے کہ ملک و قوم کے بنیادی مسائل پر قلم اُٹھائیں اور جماعت (اہل حدیث کو تحقیق و اجتہاد کی دعوت دے کر ان کی ٹھوس خدمت کرنے کی طرف متوجہ ہوں ، اللہ ہم سب کو کتاب اللہ پر اسوۂ رسول کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!