کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 44
بھلا جماعت تنظیم سے خالی بھی ہو سکتی ہے اور جماعت بھی ان لوگوں کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی اقتداء کرتی تھی، ایک راستہ پر ایک رُخ کرتے ہوئے چلتی تھی، ’’من شذ شذ فی النار سے ڈرتی تھی، اعتصام بحبل اللہ کا مصداق تھی، جو ہر وقت دشمنوں کے افساد و کید سے چوکنا رہتی اور ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ کے اعلان پر شور یٰ کے لئے جمع ہو جاتی حسبِ استطاعت اپنی ذمہ داریوں کو بجا لاتی، صلوٰۃ و زکوٰۃ و حج کو اجتماعی صورت میں ادا کرتی کیا یہ سب باتیں علانیہ شاہد نہیں کہ سلف صالحین جماعت کی تنظیم کے حقائق و اسرار سے واقف تھے اور جماعت کے نظام میں ، کسی قسم کا خلل گوارا نہ کرتے تھے، وہ نظم برقرار رکھنے کے لئے سعی و عمل کرتے تھے اور ’’قدرتی تنظیم‘‘ پر تن بہ تقدیر نہ تھے۔‘‘ اس کے بعد اداریہ کا دوسرا پیرا یوں شروع ہوتا ہے: اسلاف کے پاس ’’فکر مربوط، وحدتِ عمل اور احساس بصیر، کی دولت وافر تی اس لئے وہ سرگرمِ عمل بھی تھے اور تسبیح کے دانوں کی طرح منظم بھی۔‘‘ ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہیے؟ کیا ’’فکر مربوط‘‘ میں لفظ ’’مربوط‘‘ تنظیم کی غمازی نہیں کرتا؟ اور کیا ’’وحدتِ عمل‘‘ تنظیم سے خالی ہو سکتی ہے؟ پھر ’’تسبیح کے دانوں کی طرح منظم‘‘ جماعت کا تنظیم سے خالی ہونا ممکن ہے؟ ایں چہ بو العجبی است؟؟ صفحہ ۷ پر ’’کتاب و سنت کی غلامی‘‘ نئی اصطلاح ہے جو نہ قرآن میں سے ہے نہ حدیث میں ۔ اب تک تو جماعت اہل حدیث کے معتمد علیہ علماء غلام نبی، غلام رسول، غلام محمد، غلام احمد نامں کو اسلام کی روح کے منافی قرار دیتے تھے اور ایسے نام بدل کر غلام اللہ کر دیا کرتے تھے، اس لئے کہ غلامی (عبادت) صرف اللہ کی ہوتی ہے۔ کتاب پر ایمان ہوتا ہے اور اس کے کام کا اتباع کیا جاتا ہے۔ صفحہ ۷ پر ایک پیرے میں لکھا گیا ہے: ’’مسلمان صرف ’مسلم‘ ہے۔ تمام شخصی نسبتوں سے بالاتر اور کتاب و سنت کی غلامی کے لئے یکسو ہے۔ لیکن اس کے بجائے جب دوسری شخصی نسبتوں نے سر اُٹھایا، اور حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، اشعری، ماتریدی، چشتی، قادری، سہروردی، نقشبندی کہلانے لگے تو اہل حدیث نے سلفی اور محمدی کہلا کر دنیا کو عار دلائی الخ۔‘‘ یہ عبارت حیرت انگیز تناقص و تضاد کا مرکب ہے۔ ہم اس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اہل حدیث نے