کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 42
کہ ایک کے ساتھ سودا ہو گیا ہے، دوسرا اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں ہے کہ فلاں سے پچاس روپے لئے ہیں میں اس کے ساٹھ دیتا ہوں ۔ لہٰذا اس کو نہ دے، مجھے دے، ناجائز ہے۔ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن البخش (بخاری مسلم عن ابن عمر) آپ نے قیمت بڑھانے سے منع فرمایا ہے۔ آڑھت میں جو بولی ہوتی ہے یا چار آدمی جمع ہو کر کوئی چیز خریدتے ہیں ، جب تک بیچنے والا کسی کی بولی پر سودا ختم نہ کرے قیمت بڑھائی جا سکتی ہے۔ ناجائز صورت صرف وہ ہے جہاں بات طے ہو جائے، پھر جا کر دوسرا اس کو گمراہ کرے۔ بخش کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ خریدنے والے کی راہ مارے اور کہے کہ، اس سے نہ لے میں تمہیں اس سے بھی اچی چیز دیتا ہوں ۔ بہرحال یہ دونوں بیماریاں عام ہیں ۔ انجان کو دھوکا دینا: ہوشیار لوگ سادہ لوح انسانوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور چرب زبانی کے ۔ذریعے ان کو گھیر لیتے ہیں اور حسب منشا ان کے ہاتھ چیز بیچ دیتے ہیں ۔ یہ طریقہ بالکل ناجائز ہے ایسے سادہ لوح لوگوں کو حضور نے یہ سبق پڑھایا ہے کہ ایسے موقع پر یوں کہا کرو۔ لَا خِلَابَةَ (بخاري، مسلم عن ابن عمر) دھوکہ والی بات نہیں ۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان کو ٹھگ لے تو اس کو بعد میں اختیار رہتا ہے۔ چاہے تو سودا لوٹا سکتا ہے۔ نقد اور اُدھار پر مختلف بھاؤ: جو گاہک نقد سودا خریدتا ہے اس سے کم قیمت لیتے ہیں اور جو شخص ادھار لیتا ہے۔ اس سے زیادہ پیسے چارج کرتے ہیں ۔ یہ بھی منع ہے۔ ارشاد ہے۔ دعوا الربوا والریبة (دارمی وابن ماجہ عن عمر رضی اللہ عنہ ) ’’ربوا بھی چھوڑ دو اور ریبہ بھی۔‘‘ ربوٰ سود کو کہتے ہیں اور ریبہ وہ منفعت ہے، جس کے جائز ہونے کی شرعی حیثیت مشتبہ ہو۔ ویسے بھی ایک انسان کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی یہ ایک بدترین مثال ہے۔