کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 41
آپ کے سامنے ہیں ۔ آمدنی میں نہ برکت ہے اور نہ ہی مالدار کو اطمینانِ قلب نصیب ہے اور نہ ہی اس مال کے ذریعے ان کو کارِ خیر کی توفیق ہوتی ہے۔ اگر کوئی کرتا بھی ہے تو وہ بھی خدا سے کاروبار کرتا یا اس کو سیاسی فوائد کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ کچے باغ: یہ ایک عام وبا چل نکلی ہے کہ باغ ابھی کچے ہوتے ہیں اور ان کے سودے ہو جاتے ہیں ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ نھي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتّٰي يَبْدُ وَصَلَاحُھَا نَھَي الْبَائِعَ وَالْمُبْتَاعَ (بخاري و مسلم عن ابن عمر) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے سے پہلے اس کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔ خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو۔ حضرت انس کی روایت میں حَتّي يَبْدُوَ کے بجائے تَزْھُوَآیا ہے۔ صحابی نے پوچھا کہ یہ زَھْوَ کیا ہے فرمایا: تَحْمَارُّ وَتَصْفَارُّ (بخاری و مسلم) (پھل پک کر) زرد یا سرخ ہو جائے۔ صَلَاحِھَا کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا حَتّٰي تَذْھَبَ عَاھَتُھَا یہاں تک کہ نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔ یہی حکم دوسرے کچے کھیتوں کا بھی ہے (ترمذی۔ ابو داؤد و صحیحین۔ انس) کہ آپ نے اس سے منع کیا ہے۔ کیونکہ کیا پتہ، آفات ناگہانی کا شکار ہو جائیں ۔ پھر جھگڑا ہو گا یا خریدنے والا اُجڑے گا۔ بہرحال کوئی بھی صورت ہو، بری ہے، ناجائز ہے۔ اس لئے شریعت نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ اگر وہ پکنے سے پہلے تلف ہو جائیں تو اتنا وضع کر لیا جائے۔ بیعانہ: شریعت میں بیعانہ بھی ناجائز ہے۔ بیعانہ سودے کی ایک گونہ ضمانت ہوتی ہے۔ کوئی سودا لے لے تو وہ قیمت میں شمار ہو جاتا ہے۔ نہ لے تو ضبط کر لیا جاتا ہے۔ عن عمرو بن شعیب عن ابیه عن جدہ قال: نَھٰي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَں بَيْعِ الْعُرْبَانِ (رواه مالك) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عربان (بیعانہ) کی تجارت سے منع فرمایا ہے۔ قیمت بڑھا کر خریدنا: جہاں بولی ہوتی ہے، وہاں قیمت بڑھا کر چیز خریدنا جائز ہے لیکن یوں کرنا