کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 37
وَلَآ اَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِيْٓ اَعْيُنُكُمْ لَنْ يُّؤْتِيَھُمُ اللهُ خَيْرًا اور جو لوگ تمہاری نظروں میں حقیر ہیں میں ان کی نسبت یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ خدا ان پر (اپنا) فضل کرے گا ہی نہیں ۔ کمزوروں کو دھکے دے کر نکالنا: وہ چاہتے تھے کہ حضرت نوح علیہ السلام ان کو دھکے دے کر اپنے ہاں سے نکال دے۔ آپ نے فرمایا: یٰقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللہِ اِنْ طَرَدْتُّھُمْ اے بھائیو! اگر میں ان (غریب اور کمزوروں کو) دھکے دے کر نکال بھی دوں تو اللہ کے مقابلے میں کون میری مدد کرے گا۔ میرے یہ دعوے نہیں : خود میں بھی خدائی خزانوں کا ملک نہیں ، نہ مجھے کل کا کچھ پتہ ہے کہ کیا بنے گا یا کیا ملے گا۔ نہ ہی یہ میرا کوئی دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ اور نوری مخلوق ہوں ۔ اس لئے ضروریاتِ زندگی کا محتاج نہیں ہوں ۔ یا اپنے کو نوری سمجھ کر ان خامیوں سے دور ہوں ۔ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآئِنُ اللهِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ اِنِّيْ مَلَكٌ اور میں تم سے دعویٰ نہیں کرتا کہ میرے پاس خدائی خزانے ہیں اور (نہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ میں غائب جانتا ہوں اور نہ ہی میں (اپنی نسبت) کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ یہ جھگڑالو ہے: معقول جواب سے عاجز آکر ایسے لوگ عموماً یوں بولا کرتے ہیں کہ: ’’یہ ملاں بڑا جھگڑا لو ہے۔‘‘ یا کہیں گے۔ ’’میاں ! جا جا، جو سانپ نکالنا ہے نکال کر لے آ۔ تیری بزرگی کا ہمیں پتہ ہے۔‘‘