کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 36
اقتدار اور جاہ طلبی کا الزام: نیک لوگ، نیکی کی راہ اختیار کرنے کا درس دیں تو بد لوگ ان کو یہ طعنے دیتے ہیں کہ، یہ تو اقتدار چاہتے ہیں ۔ لیکن ان سے یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ بہ فرضِ محال ایسا ہو بھی تو کیا برا ہے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ اقتدار نیک لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ بہرحال حضرت نوح علیہ السلام کو آپ کی قوم نے یہ طعنے بھی دیئے کہ: يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وہ (تو) تم پر برتری چاہتا ہے۔ یہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے۔ یہ مرض جس قدر پرانا ہے اتنا عام بھی ہے۔ انا للہ کمزوروں کی تحقیر: کمزور قابلِ رحم ہتے ہیں ، لائقِ تحقیر نہیں ہوتے مگر قوم نے حضرت نوح علیہ السلام کو اس امر کے طعنے دیئے کہ، آپ کے ساتھ تو معمولی قسم کے لوگ ہیں : وَمَا نَرٰكَ اتَّبَعَكَ اِلَّا الَّذِيْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ ج وَمَا نَرٰي لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ اور ہمارے نزدیک صرف وہی لوگ تمہارے پیچھے چلے ہیں جو ادنیٰ درجے کے ہیں ۔ ہم تو تم لوگوں میں اپنے سے کوئی برتری نہیں پاتے۔ قَالُوْآ اَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ انہوں نے کہا کہ کیا ہم آپ پر ایمان لے آئیں حالانکہ صرف ادنیٰ درجے کے لوگوں نے آپ کا اتباع کیا ہے۔ چونکہ پیسے کے اعتبار سے یہ پاک نفوس کمزور تھے۔ اس لئے یہ قوم ان کو ادنیٰ درجے کے لوگ قرار دیتی تھی بلکہ ان کی حقیر کا یہ رنگ اس قدر تیز ہو گیا تھا کہ وہ یہ بھی کہنے لگے کہ اللہ میاں کی نگاہ میں بھی یہ حقیر لوگ ہیں ۔ ورنہ ان کو بھوکا ننگا کیوں رکھتا۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو ان سے یہ کہنا پڑا کہ: