کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 34
حوصلہ نہیں رکھتے۔ بس وہ میدانِ زندگی میں چور بن کر اترتے ہیں اور چوروں کا سا پارٹ ادا کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے جس قوم کے ہونہار لوگوں کا یہ وطیرہ ہو گا، وہ ساحلِ عافیت سے کیسے ہمکنار ہو سکے گی؟ ایک اور مقام پر قرآنِ کریم نے اس ذہنیت کے لوگوں کا یوں ذِکر فرمایا ہے: يُخٰدِعُوْنَ اللهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں ۔ الغرض جس قوم یا افراد کی فطرت میں یہ مرض نشہ بن کر رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ وہ بد نصیب اس کی کمندیں خدا پر بھی ڈالتے ہوئے نہیں شرماتے۔ کٹ حجتی: ان مکار اور دغا بازوں کی یہ کوشش بھی رہی کہ گلا پھاڑ پھاڑ، چلا چلا کر اور جھگڑ جھگڑ کر کسی طرح حق اور اہلِ حق کو ہراساں کیا جائے تاکہ وہ ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیں ۔ حق کی آواز کو دبا دیا جائے اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے حق کی رونق اور بہار کو اس سے چھین لیا جائے۔ فرمایا: وَجَادَلُوْا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوْا بِهِ الْحَقَّ اور جھوٹی باتوں سے (سند پکڑ کر پیغمبر سے) جھگڑے تاکہ اپنی کٹ حجتی سے حق کو (اپنی جگہ سے) لڑ کھڑا دیں ۔ جھڑکیاں : اللہ والوں کو جھڑکیاں اور دھمکیاں دینا عام دستور ہے تاکہ وہ حق کی بات کہنے سے باز رہیں ۔ چنانچہ قوم نے حضرت نوح علیہ السلام سے بھی یہی معاملہ کیا تھا: فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَقَالُوْا مَجْنُوْنٌ وّازْدُجِرَ (انہوں نے نوح کے بارے میں ) کہا: (یہ) دیوانہ ہے اور انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور ان کو جھڑکیاں دی گئیں ۔