کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 33
پیغمبرِ خدا سے مخول: کُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاءٌ مِّنْ قَوْمِه سَخِرُوْا مِنْهُ جب کبھی ان کی قوم کے سر کردہ لوگ ان کے پاس سے گزرتے تو وہ ان کا تمسخر کرتے۔ یہ مکروہ مشغلہ عوام کا نہیں تھا بلکہ منتخب (ملاء) لوگوں کا تھا جس قوم کے منتخب لوگ ایسے ہوئے ان کے عوام کی پستی کا خود اندازہ فرما لیں ۔ جس تمسخر اور مخول سے غرض کسی کی تحقیر اور تذلیل ہو۔ وہ ہرحال میں برا ہے۔ خواہ کسے باشد۔ اگر یہ صورت خدا اور اس کے رسول اور اس کی آیات کے سلسلہ میں بھی پیدا ہو جائے تو اس کی سنگینی کا اندازہ خود فرما لیجئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِا للهِ وَاٰيٰتِه وَرَسُوْلِه كُنْتُمْ تَستَھْزِءُوْنَ۔ اگر آپ ان سے پوچھیں (کہ یہ کیا حرکت تھی) تو وہ ضرور یہی جواب دیں گے کہ ہم تو یونہی ہنس کھیل کر رہے تھے (اے نبی!) ان سے کہہ دو کہ ہنس کھیل کرنی تھی تو خدا ہی کے ساتھ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ؟ (اوفو!) مکر و فریب: قومِ نوح میں یہ مرض بھی جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ بہت بڑے مکار اور دغا باز تھے اور اس کے اتنے دھنی نکلے کہ خدا اور اس کے رسولوں سے فریب کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے تھے۔ وَمَكَرُوْا مَكْرًا كُبَّارًا اور وہ (مکر و دغا کی) بڑی بڑی چالیں چلے۔ مکر و فریب دھوکا اور دغا ہمیشہ ان غلط کار افراد کا شیوہ ہوتا ہے جن کے ترکش حیات میں سچائی، اور خیر کا کوئی قابلِ کشش تیر نہیں ہوتا۔ وہ راست روی کے ذریعے عوام کا دل جیتنے اور حق لے کر برملا چلنے کا