کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 32
5. عوام ہر بات کو آباء و اجداد کے موروثی تعامل کے پیمانوں سے لینے کے عادی ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مصلح ان سے بالاتر ہو کر انکی بے عقلی کی باتوں اور غلط رسومات پر تبصرے کرتا ہے تو وہ چِلّا اُٹھتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ سارے غلط راہ پر ہوں اور یہ تنہا آدمی ہوش میں ہو۔ 6. ویسے بھی وہ طبقہ جو جاہ و حشمت اور مال و دولت کے لحاظ سے قوم میں کمزور ہوتا ہے۔ دنیا اس کو حقارت کی ہی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ ہاں اگر کوئی دھن دولت والا، بو الفضول بکواس ہی کر رہا ہو تو لوگ واہ واہ ہی کرتے ہیں ۔ دل کے اندھے: گو ان کے سروں میں آنکھوں کے گڑھے موجود تھے لیکن دل کی دنیا اس سے کلیۃً محروم تھی۔ وہ قوم بصیرت کھو چکی تھی، نابینا دلوں کی بہتات تھی۔ عناد، رسومات اور تقلیدِ آباء کے پردے ان کی آنکھوں پر چھا گئے تھے۔ اِنَّھُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ بیشک وہ لوگ دل کے اندھے تھے۔ قَالَ يٰقَوْمِ اَرَاَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَاٰتٰنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِه فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ اَنُلْزِمُكُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَھَا كٰرِھُوْنَ۔ (حضرت) نوح علیہ السلام نے کہا کہ اے میری قوم! دیکھو تو سہی۔ اگر میں اپنے پروردگار کے کھلے رستے پر ہوں اور مجھ کو اس نے اپنی جناب سے نعمت (پیغمبری) عطا فرمائی ہے پھر وہ راستہ تم کو دکھائی نہیں دیتا تو کیا ہم اس کو زبردستی تمہارے گلے مڑھ رہے ہیں اور تم (ہو کہ) اس کو ناپسند کیے جاتے ہو۔