کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 30
کہ یہ ایک بہترین تشبیہ ہے اس لئے کہ ان کے بدن ان کے دلوں کی قبریں ہیں ۔ دل مر گئے ہیں اور انہیں ان کے ابدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔ یہاں پر مردہ دلی سے مراد یہ نہیں کہ ان دلوں کی حرکت یا دھڑکن بند ہو گئی ہے بلکہ اس سے مراد وہ دل ہیں جن میں مذکورہ چیزوں میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، جن پر جہالت و نحوست کی تہیں جمی ہوں اور جن میں زندگی پیدا کرنا صرف اسی طور ممکن ہے کہ مذکورہ اوصاف ان میں بتدریج پیدا کیے جائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: ’’جس طرح لوہا زنگ آلود ہو جاتا ہے بعینہٖ انسانی دل بھی زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دل کو صیقل کرنے یا اسے جلا بخشنے کا طریقہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ ربّ العزت کا تصور اور ہر آن اس کی یاد دلوں کو جلا بخشتی ہے اور ان میں نورانیت پیدا کرتی ہے۔‘‘ غرضیکہ جو اپنی خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے، اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کا جائزہ لے اور بتدریج اصلاح کی کوشش کرے ورنہ بصورتِ دیگر انسان اور حیوان میں کوئی بنیادی فرق نہ ہو گا اور ایسا انسان ’’ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ‘‘ اور ’’اُوْلٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ‘‘ کے زمرے میں آجائیگا۔ ٭ تو کیا ہماری تخلیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور مر جائیں ؟ ٭ کیا اس کائنات میں ہم پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟ ٭ کیا ہمیں کسی ضابطۂ اخلاق کی ضرورت نہیں ؟ ٭ کیا ہم انسان ہیں ؟ کیا ہم اشرف المخلوقات ہیں ؟ ٭ کیا ہمیں ’’خلیفة الارض‘‘ بننے کا شرف حاصل ہے؟ ٭ اگر ہے تو کیوں ؟ مسلمانو! ذرا اپنے دلوں کا جائزہ لو۔ دماغوں سے سوچو اور میرے سوالات کا جواب دو۔