کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 27
تعمیرِ انسانیت جناب محمود احمد اس جہانِ رنگ و بو میں کروڑوں نہیں اربوں انسان زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ مسلم بھی اور غیر مسلم بھی، نیک بھی اور بَد بھی، ظالم بھی آباد ہیں اور مظلوم بھی، جاہل افراد بھی موجود ہیں اور دانش مند بھی۔ مگر اس دَور میں نیکی کی بجائے بدی کا، عدل و انصاف کی بجائے ظلم و تشدّد کا اور امن و آشتی کی بجائے جہالت و بربریت کا غلبہ ہے۔ ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی ہے۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ بے حیائی اور فحاشی نقطۂ عروج تک پہنچی ہوئی ہے۔ اقدار مٹ رہی ہیں ، عزتیں لٹ رہی ہیں اور عصمتیں داغدار ہو رہی ہیں ۔ خصوصاً مسلمان قوم آج ذِلت و رسوائی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتی چلی جا رہی ہے۔ دیگر اقوام اسے تر نوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں ۔ انسانیت خوابیدہ ہے، اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے، دل مردہ ہو چکے ہیں ، ان میں زندگی کی لہر دوڑانا ناگزیر ہے، دل بے شمار بیماریوں کا شکار ہیں ، ان کا علاج از بس ضروری ہے۔ دل کو جسم انسانی میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے جو کیفیت دل کی ہوتی ہے اعمال اسی کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ دل میں فساد و بربریت ہو تو اعمال سے یقیناً درندگی ٹپکے گی اور اس کے برعکس اگر دل میں امن و آشتی کے جذبات ہوں تو اعمال سے محبت و الفت کے زمزمے پھوٹیں گے۔ اسی لئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلَا فِي الْجَسَدِ مُضْغَةٌ اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ كُلُّه وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّه اَلَا وَھِيَ الْقَلْبُ کہ جسم انسانی میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو جسم کے تمام اعضاء درست کام کرتے ہیں ۔ جب اس میں خرابی پیدا ہوتی ہے تو تمام جسم میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔