کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 25
کے ضمن میں دودھ، دہی، گھی وغیرہ کی پیداوار میں اضافہ۔ (۴) چرم سازی کے کارخانوں کے لئے خام مال کی فراہمی۔ (۵) جوتے اور دوسری چرمی صنعتوں کا فروغ۔ (۶) چرمی اشیاء کی برآمد اور زر مبادلہ کا حصول۔ (۷) کھالوں کی برآمد اور کثیر زرِ مبادلہ کا حصول۔ (۸) ادن کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی برآمد سے زرِ مبادلہ کا حصول۔ (۹) مندرجہ بالا صنعتوں اور برآمدی کاروبار میں ہزار ہا افراد کو روزگار مہیا ہونا۔ (۱۰) گوشت کی بہت بڑی مقدار کا غرباء کے حصہ میں آنا اور ان کی عید کی خوشی کا دوبالا ہونا۔ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ غرض یہ کہ قربانی سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اگر کسی کو یہ فوائد نظر نہ آئیں تو اس کا کیا علاج ہے۔ مادی عینک سے ہر چیز کو دیکھنے والوں کے لئے ہم نے مادی فوائد کا ذِکر کیا تاکہ دنیا والوں کو معلوم ہو جائے کہ اسلام کے ہر حکم میں متعدد مصالح مضمر ہیں اور اسلام ہی وہ نظامِ معیشت پیش کرتا ہے جس میں بے پایاں خیر و برکت ہے ورنہ اگر قربانی میں یہ مادی فوائد نہ بھی ہوتے تب بھی ہم اسے اسی ولولہ سے انجام دیتے جس طرح گزشتہ انبیاء علیہم السلام قرآن کی بیان کردہ قربانی دیا کرتے تھے اور ان کو قطعاً اس کے مادی نقصان کی پرواہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ رضوانِ الٰہی اور روحانی فائدہ جہاں مقصود ہو وہاں مادی نقصان تو کیا جانی نقصان کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی اور ہم قربانی روحانی فوائد کے لئے ہی کرتے ہیں نہ کہ مادی فوائد کے لئے۔ منکرینِ حدیث کے لئے درسِ عبرت: منکرینِ حدیث ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ قرآن تو اس قربانی کا ثبوت پیش کرتا ہے جو کلیۃً ضائع ہو جاتی ہے۔ حدیث میں اس قربانی کا ثبوت ہے جو مادی فوائد سے مالا مال ہے۔ اگر حدیث پر اعتراض ہے، حالانکہ وہ غلط اعتراض ہے تو کیا اس طرح کا اعتراض قرآن پر نہیں ہو سکتا؟ معلوم نہیں یہ لوگ قرآن پر اعتراض کیوں نہیں کرتے تاکہ ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے اور جاہل عوام دھوکا نہ کھائیں ۔ یہ لوگ قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں تاکہ عوام ان کو مسلمان اور قرآن کا وفادار سمجھیں ، حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے قرآن مجید کے ساتھ جو کھیل یہ کھیل رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تحریفِ معنوی