کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 24
جائزہ لیتے ہیں ۔ قرآن مجید سے بھی اس قربانی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے لیکن ہم اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتے، اس لئے کہ نہ ہم خود اس بات کے قائل ہیں کہ جب تک کسی چیز کا ثبوت قرآن میں نہ ہو وہ چیز ثابت نہیں ہوتی، اور نہ اس عقیدہ کو دوسروں کے ذہنوں میں جگہ دینا چاہتے ہیں ۔ اگر کسی چیز کا ثبوت حدیث سے مل جاتا ہے تو بس وہ کافی ہے۔ مزید ثبوت کی ضرورت نہیں ۔ قربانی ابتدائے آفرینش سے جاری ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کی قربانی کا ذِکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشادِ باری ہے: ’’اِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلْ مِنْ اَحَدِھِمَا (مائده)‘‘جب دونوں نے قربانی پيش کی تو ان دونوں میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی۔ ایک اور جگہ ارشاد باری ہے: اَلَّذِيْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللهَ عَھِدَ اِلَيْنَآ اَنْ لَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰي يَاْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَاكُلُهُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِيْ بِالْبَيِّنٰتِ وَ بِالَّذِيْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْھُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۔ ان لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جس کو آگ کھا جائے کہہ دو کہ مجھ سے پہلے رسول، معجزات کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور وہ قربانی بھی پیش کی جس کا تم مطالبہ کرتے ہو تو پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو؟ یعنی گزشتہ انبیاء کے زمانہ میں ایسی قربانی کا دستور تھا کہ قربانی کی اشیاء کو ایک جگہ رکھ دیا کرتے تھے۔ آگ آتی تھی اور ان اشیاء کو جلا دیا کرتی تھی۔ یہ قربانی کے قبول ہونے کی علامت تھی۔ لیجئے قرآن مجید سے ایسی قربانی کا ثبوت ملتا ہے جس کا مادی فائدہ کچھ نہیں بلکہ کلیۃً مال کی بربادی ہے اور کچھ نہیں ۔ اب ہماری موجودہ قربانی کا جائزہ لیجئے کہ اس میں کتنے مادی فوائد ہیں ۔ (۱) دولت کی گردش یعنی موجودہ معیشت کا اہم تقاضا۔ (۲) دولت کا سرمایہ داروں کی جیب سے نکل کر غرباء کے ہاتھوں میں منتقل ہونا اور غرباء کا ذریعۂ معاش بننا۔ (۳) مویشی کی افزائشِ نسل کی حوصلہ افزائی اور اس