کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 23
قربانی اور منکرینِ حدیث جما عت ا لمسلمین کراچی عید الاضحیٰ تکمیلِ دین کا عظیم الشان تہوار اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی فقید المثال قربانی کی یادگار ہے۔ مسلمان صرف نظریاتی طور پر ہی اس یادگار کو نہیں مناتے بلکہ عملی طور پر بھی اپنی قربانیاں پیش کر کے جذبۂ قربانی کو فروغ دیتے ہیں ۔ گویا عید الاضحیٰ قربانی کی ایک عملی مشق ہے۔ یہ عملی مشق اور پھر اس بات کا اقرار کہ مَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ یعنی ہماری زندگی اور موت سب اللہ کے لئے ہے۔ اس بات کا سق ہے کہ در حقیقت ہماری کوئی چیز ہماری نہیں بلکہ ہر چیز حتیٰ کہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ لیکن افسوس کتنی جلدی ہم اس عہد و پیمان کو بھول جاتے ہیں اور اللہ کے دین کی خدمت کے لئے نہ کوئی وقت نکالتے ہیں نہ مال و دولت خرچ کرتے ہیں ۔ عید الاضحیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے برابر ہر سال منائی جا رہی ہے۔ اور ہر سال قربانیاں بھی متواتر و مسلسل ہوتی رہی ہیں ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس کا انکار حقائق کا انکار ہے۔ لیکن وائے افسوس! ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہیں جو اس قربانی کا انکار کرتے ہیں اور اس کو مال کا ضیاع تصوّر کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی دولت کا کروڑوں روپیہ ہر سال برباد ہو جاتا ہے۔ اگر یہ روپیہ اس طرح ضائع نہ ہو تو اس سے قوم کی معیشت کو کافی حد تک بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں یہ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس قربانی کا کوئی ثبوت نہیں لہٰذا اس کی کوئی اہمیت نہیں ، گویا قربانی پر دو قسم کا اعتراض ہے۔ (۱) قرآن مجید میں اس کا حکم نہ ہونا (۲) مادی نقصانات۔ اب ہم ان دونوں باتوں کا