کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 22
مسندِ حاکم کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی حکم دیا تھا: قُوْمِيْ يَا فَاطِمَةُ اِلٰي اُضْحِيَّكِ فَاشْھَدِيْھَا اے فاطمۃ رضی اللہ عنہا ! اپنی قربانی کی طرف جا کر کھڑی ہو جا اور اس کے پاس حاضر رہو۔ ذیلعی نے تخریجِ ہدایہ میں اس روایت کو تین مسندوں سے ذکر کیا ہے۔ مسندِ بزاز کی حدیث کو سب پر ترجیح دی ہے۔ بہرحال ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہتر تو یہ ہے کہ خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے اور اگر دوسرے سے ذبح کرائے تو بہتر اور افضل ہے کہ خود پاس کھڑا ہو۔ ابو موسیٰ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی ذبح کر سکتی ہیں اور کوئی نص شرعی اس کے خلاف نہیں ۔ اگر قربانی کا جانور خریدنے یا متعین کر لینے کے بعد بچہ جنے تو اس کو بھی ذبح کرنا ہو گا۔ تلخیص میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذِکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کی اونٹنی اور اس کا ایک بچہ لیے جا رہا ہے تو آپ نے فرمایا: لَا تَشْرَبْ مِنْ لَّبَنِھَا اِلَّا مَا فَضَل عَنْ وَّلَدِھَا اس کا دودھ صرف اتنا ہی پی سکتے ہو جس قدر اس بچہ سے بچ جائے۔ اور مسند ابن ابی حاتم ميں یہ لفظ بھی ہیں ، فَاِذَا كَانَ يَوْمُ النَّحَرِ فَانْحَرْھَا ھِيَ وَوَلَدَھَا عَنْ سَبْعَةٍ (قربانی کے دن اس کو اور اس کے بچہ کو سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرو۔ مگر ذبح کرنے کے بعد مردہ بچہ بر امد ہو، تب تو سوائے امام ابو حنیفہ کے اکثر صحابہ، تابعین اور ائمہ دین کے نزدیک بغیر ذبح کیے ہوئے حلال اور جائز ہے۔ کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ صحابہ نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم بعض دفعہ گائے، اونٹنی یا بکری ذبح کرتے ہیں تو اس کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے کیا ہم اسے کھا لیا کریں یا پھینک دیں ؟ آپ نے فرمایا: كُلُوْهُ اِنْ شِئْتُمْ فَاِنَّ ذَكَاتَه ذَكَاةُ اُمِّه اگر جی چاہے تو بیشک کھاؤ، اس کی ماں کا ذبح کر لینا اس کے لئے بھی کافی ہے۔ ذیلعی نے تخریجِ ہدایہ جلد ۲ ص ۲۶۵ میں آٹھ دس کے قریب اسی مضمون کی حدیثیں نقل کی ہیں اور ان میں سے اگرچہ بعض پر جرح کی ہے، لیکن بعض صحیح بھی ہیں اور انہوں نے بھی اس مشکل کو محسوس کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا قول اس مسئلہ میں صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ اس لئے تمام احادیث کے آخر میں ابن المنذر کا قول نقل کر دیا ہے۔ کسی صحابی نہ کسی تابعی نہ کسی عالم کا یہ قول ہے کہ ذبح کے بعد پیٹ سے نکلا ہوا بچہ ذبح کیا جائے، سوائے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اور مجھے اُمید نہیں کہ ان کے شاگردوں نے ان سے اتفاق کیا ہو۔