کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 20
اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں جبیر بن مطعم کی حدیث کے علاوہ جابر سے بھی یہی حدیث اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نقل کی ہے جو ثقہ اور قابلِ اعتماد راوی ہیں اور اس کے علاوہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایامِ تشریق کو ایام ’’اکل وشرب‘‘ یعنی کھانے پینے کے دن فرمایا ہے اور اسی لئے ان ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے اور جب عید کے بعد تین دن ان سب احکام میں ایک حیثیت رکھتے ہیں ، یعنی یہی تین دِن ایامِ منیٰ، ایامِ رمی اور ایامِ تشریق ہیں ۔ ان میں روزہ رکھنا حرام ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ذبح قربانی کے لئے ایک دن (تیرہویں تاریخ) کو مستثنیٰ کر دیا جائے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اسی قول کو ترجیح دی ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے:۔
اَیَّامُ النَّحْرِ یَوْمُ الْاَضْحٰی وَثَلَاثَةُ اَيَّامٍ بَعْدَه قربانی کے دن عید کے روز سے تین دن بعد تک ہیں ۔
اس کے بعد فرماتے ہیں ، یہی قول بصرہ کے امام حسن رحمہ اللہ کا اور امامِ اہلِ مکہ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ اور امام اہلِ شام اوزاعی رحمہ اللہ امام فقہاء اہلِ حدیث شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب الاختیارات میں فرماتے ہیں :
واخر وقت ذبح الاضحية اخر ایام التشریق وھو مذھب شافعی واحمد القولين في مذھب احمد
قربانی کا آخری وقت ایام تشریق کا آخری دن ہے اور یہی مذہب امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی ہے۔
قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار ص ۳۵۹ جلد ۴ میں اور حافظ ابن کثیر نے تفسیر کی دوسری جلد ص ۵۳ میں اسی مسلک کی تائید کی ہے اور اس کو تمام اقوال میں ارجح بتایا ہے۔ پہلا قول یعنی صرف تین دن قربانی جائز رکھنے والوں کی دلیل مؤطا امام مالک رحمہ اللہ کی روایت عبد اللہ بن عمر سے ہے، فرماتے ہیں :
الاضحی یومان بعد یوم الاضحیٰ کہ عید کے دن کے سوا و دن اور قربانی کے ہیں ۔
چونکہ یہ مرفوع حدیث نہیں ۔ اس لئے پہلی مرفوع اور صحیح حدیثوں کے مقابلے میں اس کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔
رات کے وقت ذبح کرنا:
بعض اہل علم نے قرآن کے لفظ ’’فی ایام معلومات‘‘ (معلوم و معین دنوں میں )