کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 19
ہے اور کوئی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ صرف عید کا دن قربانی کا دن ہے یا یہ کہ قربانی کا دن ایک ہی ہے چوتھا قول بھی صحیح ہے کیونکہ کوئی مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ہے۔ مراسیل ابی داؤد میں ایک مرسل روایت ہے لیکن مرسل روایت محدثین کے نزدیک حجت نہیں ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں کہ مرفوع احادیث کے خلاف ہو۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ فتح الباری ابو امامہ کی روایت امام احمد کے واسطے سے ذِکر کرتے ہیں ۔
كَانَ الْمُسْلِمُوْنَ يَشْتَرِيْ اَحَدُھُمُ الْاُضْحِيَّةَ فَيَسْمَنُھَا وَيَذْبَحَھُا فِيْ اٰخِرِ ذِيْ الْحَجَّةِ قَالَ اَحْمَدُ ھٰذَا الْحَدِيْثُ عَجِيْبٌ
مسلمان قربانی کے جانور خرید لیتے اور اس کو خوب موٹا تازہ کرتے اور ذی الحجہ کے آخر میں اس کو ذبح کرتے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عجیب قسم کی ہے۔
بہرحال اس رووایت سے بھی مرسل ابی داؤد کی تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو مرسل بھی نہیں ہے بلکہ یحییٰ بن سعید کا قول ہے۔
دوسرا قول صحیح حدیث کے مطابق ہے یعنی عید کے بعد تین دن اور قربانی کی جا سکتی ہے۔ یہی قول جمہور اہلِ علم کا ہے۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں :
وَحُجَّةُ الْجُمْھُوْرِ حَدِيْثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رَّفَعَه حَجَّاجٌ وَفِيْ كُلِّ اَيَّامِ التَّشْرِيْقِ ذَبْحٌ اَخْرَجَه اَحْمَدُ لٰكِنْ فِيْ سَنَدِه انْقِطَاعٌ وَّ وَصَلَه الدَّارَ قُطْنِيُّ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ (فتح الباری)
جمہور کی دلیل جبیر بن مطعم کی مرفوع حدیث ہے کہ تمام ایام تشریق میں ذبح ہو سکا ہے۔ امام احمد نے اس کو روایت کیا ہے لیکن اس کی سند منقطع ہے۔ دار قطنی نے اس کو متصل بیان کیا ہے اور اس کے راوی سب ثقہ ہیں ۔
ایام تشریق کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں کہ وہ عید کے دِن تین دن تک ہیں ۔ یعنی ۱۳ ذوالحجہ تک دار قطنی نے اس کو دو طریقوں سے متصلاً بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دار قطنی کے راویوں کو ثقہ کہا ہے۔