کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 17
سب شامل ہیں جو آپ کے سامنے فوت ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہیں اور یہ حدیث مسلم، دارمی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد اور حاکم وغیرہم سب نے روایت کی ہے اور متعدد صحابہ سے مروی ہے لیکن یہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہوتا کہ جو قربانی آپ امت کی طرف سے دیتے وہ ساری کی ساری صدقہ کر دیتے تھے اور اس میں سے آپ یا آپ کے گھر والے کچھ نہیں کھاتے تھے۔ بلکہ مسندِ امام احمد رحمہ اللہ کے الفاظ تو بہت زیادہ واضح ہیں ، اس میں تو یہ ہے: فَيُطْعِمُ مِنْھُمَا جَمِيْعًا الْمَسَاكِيْنَ وَيَاْكُلُ ھُوَ وَاَھْلَه مِنْھَا (عن ابی رافع) کہ آپ دونوں قربانیوں میں سے مساکین کو بھی کھلاتے اور آپ اور آپ کے گھر والے سب ان دونوں میں سے کھاتے۔ اس لئے صحیح قول یہی ہے کہ میت کی طرف سے قربانی دی جا سکتی ہے اور اس میں سے کچھ صدقہ کرنا اور کچھ کھا لینا جائز ہے۔ قربانی کا بیچنا اور تبادلہ کرنا: قربانی کے لئے کسی جانور کو معین کرنے کے بعد اس کا فروخت کرنا یا ہبہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت بنانے والے قصاب کو قربانی کا گوشت اجرت میں دینا منع فرمایا۔ تو جب قربانی کا گوشت اجرت میں دینا منع ہے و اس کا فروخت کرنا بطریق اولیٰ منع ہو گا۔ اور مسند امام احمد میں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نہایت عمدہ جانور بھیڑ بکری کی قسم سے مکہ مکرمہ قربانی کے لئے بھیجنے کا ارادہ کیا، اس کے بد انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: فَقَالَ اِنِّيْ اَھْدَيْتُ نَجِيْبًا فَاَبِيْعُھَا وَاَشْتَرِيْ بِثَمَنِھَا بَدَنَةً قَالَ لَا انْحَرْھَا کہ میں اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے اونٹ خرید لوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ، اسی کو ذبح کرو۔ تو معلوم ہوا کہ قربانی کا جانور ایک دفعہ معین کر لینے کے بعد فروخت کرنا جائز نہیں ، اگرچہ اس فروخت کرنے سے اس کا مقصد اس سے بہتر جنس خرید کر قربانی کرنا ہی ہو کیونکہ جس جانور کو ایک دفعہ اللہ کے نام پر خرید لیا یا اللہ کے نام پر ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہو۔ پھر اس نامزدگی سے اس کو محروم کرنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔ اور اس کی تائید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی جا سکتی ہے جس کو صاحبِ تلخیص نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے