کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 16
ان روايات كے ذكر كرنےسے مطلب یہ ہے کہ طحاوی رحمہ اللہ نے حنفیت کی حمایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا تھا یا منسوخ ہو گیا ہے۔‘‘ کسی طرح بھی صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا کیا اور ابو ایوب انصاری کی روایت سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیر تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے اور اپنی طرف سے ایک قربانی کرتا حَتّٰي تَبَاھَي النَّاسُ پھر ایک یہ وقت آیا کہ لوگوں نے اس میں فخر شروع کر دیا اور جب اور صحابہ سے بھی ثابت ہے اور آپ کے بعد بھی لوگ اس پر عمل کرتے رہے، پھر یہ کہنا کہ یہ خاصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے یا یہ منسوخ ہو چکا ہے کیونکر صحیح ہو سکتا ہے لیکن طحاوی رحمہ اللہ بھی مجبور بلکہ معذور ہیں کیونکہ تقلید کی وجہ سے حمایتِ مذہب کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کے ہوتے ہوئے وہ یہی کر سکتے ہیں اور اس قسم کے مریضِ عشق کی تڑپ اور بے قراری کا مظاہرہ ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ پس کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصہ نبی کریم کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے اور کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کو خاصۂ نبی کہہ کر اپنے آپ کو بچا لیا جاتا ہے اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ پُر لطف وہی جگہ ہوتی ہے جہاں حدیث کے متعلق کہا جاتا ہے کہ منسوخ ہے، یہ بے چارگی اور سراسیمگی کا فی الحقیقت نہایت قابلِ رحم منظر ہوتا ہے۔ بہرحال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کے یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں ۔
قربانی میت کی طرف سے:
حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمیشہ دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا:
اِنَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوْصَانِيْ اَنْ اُضَحِّيَ عَں هُ َاَنَا اُضَحِّيْ عَنْهُ
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کیا کروں سو اس کی تعمیل میں قربانی کرتا ہوں ۔ (ترمذی، ابو داؤد)
چونکہ اس حدیث میں بعض راویوں پر جرح ہے، اس لئے بعض ائمہ نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک قربانی تو میت کی طرف سے جائز نہیں لیکن صدقہ جائز ہے اور اگر قربانی کرے بھی تو خود اس میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ سارے کا سارا صدقہ کر دے لیکن کسی حدیث سے ایسا ثابت نہیں ۔ ترمذی کی حدیث میں اگرچہ ایک راوی پر جرح ہے۔ لیکن یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قربانی تمام امت کی طرف سے دیتے جیسے کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ، تو امت میں زندہ اور مردہ