کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 13
’’وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمَوُلَةً وَّفَرْشًا كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللهُ‘‘ (وقال) ’’ثَمَانِيَةَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّانِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ‘‘ (وقال) ’’وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ‘‘ خدا نے یہ چار پائے نرو مادہ آٹھ قسم کے پیدا کیے ہیں ۔ (بعض اونٹ کی طرح) بوجھ اُٹھانے والے اور (بھیڑ بکری کی طرح) زمین سے لگے ہوئے۔ لوگو! خدا نے تمہیں جو روزی دی ہے اس میں سے بے تامل کھاؤ۔ پھر فرمایا خدا نے یہ چار پائے آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں اور بھیڑوں میں سے نر اور مادہ دو(۲) بکریوں میں سے نر اور مادہ، پھر فرمایا دو اونٹوں میں سے نر اور مادہ۔ دو گائے کی قسم میں سے نر مادہ۔ لفظ ’’بھیمة الانعام‘‘ کی اس قرآنی تشریح کے بعد یہ مسئلہ واضح ہو گیا کہ قربانی انہی آٹھ قسم کے جانوروں سے دینی چاہئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس استنباط اور اسی تفسیر کی بنا پر تفسیر کی بنا پر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (زاد المعاد) اور دوسرے محدثین نے یہ لکھا ہے کہ: ’’وھی ختصة بالازواج الثمانية المذکورۃ فی الانعام‘‘ کہ قربانی وغیرہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوٹ، گائے، بکری، دنبہ کی قربانی دی ہے۔ گائے کی قربانی اپنے ازواجِ مطہرات کی طرف سے دی تھی اور اونٹ بکری اور دنبہ کی قربانی آپ نے اپنی طرف سے مختلف اوقات میں کی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی انہی جانوروں کی قربانی ثابت ہے۔ قربانی میں شرکت: متعدد حضرات اگر مشترکہ طور پر قربانی دینا چاہیں تو یہ جائز ہے اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن یہ مسئلہ کسی قدر تشریح طلب ہے۔ گائے اور اونٹ کے متعلق تو صریح احادیث سے ثابت ہے کہ متعدد اشخاص کی طرف سے قربانی دی جا سکتی ہے۔ ایک گائے میں سات شامل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح اونٹ میں بھی۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ میں دس شامل ہو سکتے ہیں ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اونٹ کے متعلق دونوں حدیثیں ذکر کی ہیں ۔ لیکن سات والی کو ترجیح دی ہے۔