کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 12
وَسَمّٰي وَكَبَّرَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنبوں کی قربانی کی جو دو سینگ والے او چتکبرے تھے۔ دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ترمذی میں یہ روایت بھی ہے کہ آپؓ ہمیشہ و دنبوں کی قربانی کرتے تھے، ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنے لئے۔ کسی کے سوال کے جواب میں آپ نے کہا مجھ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے، میں اس کو کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جس جانور کی قربانی دی تھی وہ دنبہ ہی تھا۔ اس لئے اکثر علماء نے کہا ہے کہ بہترین قربانی دنبہ ہے۔ قربانی کے جانور: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی، عقیقہ ہمیشہ انہی آٹھ قسم کے جانوروں میں سے کیا جن کی تفصیل سورۂ انعام میں موجود ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ استنباط پیش کیا ہے جو انہوں نے مندرجہ ذیل آیات سے کیا ہے۔ سورۂ حج میں ایک جگہ فرمایا ہے: وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللهِ عَلٰي مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِيْمَةِ الْاَنْعَامِ کہ امت کے لئے ہم نے قربانی قرار دی ہے تاکہ خدا نے جو ان کو مویشی (چار پائے) دے رکھے ہیں ، قربانی کرتے وقت ان پر خدا کا نام لیں ۔ اس آیت سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانوروں کے لئے ’’بھیمة الانعام‘‘ بولا گیا ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے سورۂ حج کے رکوع میں فرمایا: عَلٰي مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِيْمَةِ الْاَنْعَامِ فَكُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِيْرَ کہ خدا کا نام لیں ان چار پاؤں مویشیوں پر جو خدا نے ان کو دے رکھے ہیں ۔ لوگو! قربانی کے گوشت سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔ اس آیت سے بکمال وضوح یہ ثابت ہوا کہ قربانی کے جانور وہی ہیں جن کے لئے قرآن میں ’’بَھِیْمَةُ الانعام‘‘ لفظ بولا جاتا ہے۔ اب قرآن مجید ہی سے اس لفظ کی تشریح تلاش کرتے ہیں تو سورۂ انعام رکوع ۱۷ سے اس کی تشریح یہ معلوم ہوتی ہے۔