کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 11
انصاری اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے کہ قربانی سنت ہے۔ اس لئے اکثر محدثین کا اس مسئلہ میں یہی فتویٰ ہے کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے۔ کیونکہ آپ نے ہمیشہ قربانی دی۔
قربانی کی فضیلت:
اس عمل کی محبوبیت اور فضیلت کا ذِکر کرتے وقت آپ نے یہ فرمایا:
مَا عِمَلَ اٰدَمِيٌّ مِّنْ عَمَلِ يَوْمِ النَّحْرِ اَحَبُّ اِلَي اللهِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ
قربانی کے دن کوئی عمل، اللہ کے نزدیک خون گرانے سے زیادہ محبوب نہیں ۔
اور جیسا کہ عام طور پر زبان زد عام ہے کہ قیامت کے دن پل صراط پر قربانی کے جانور سواری کا کام دیں گے اس لئے قربانی کے جانور خوب موٹے تازے ہونے چاہییں ، بالکل غلط ہے۔ اس کا کسی حدیث سے ثبوت نہیں مل سکتا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص میں اس مضمون کی ایک حدیث ذکر کر کے بحوالہ ابن صلاح لکھا ہے کہ یہ حدیث ہمیں تک ہمیں علم ہے ثابت نہیں اور اس کا کوئی اصل نہیں ۔
بہترین قربانی:
اس میں شک نہیں کہ موٹی تازی اور عمدہ قربانی کو آپ پسند کرتے جیسا کہ حافظ نے تلخیص میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے:
اَحَبُّ الضَّحَا يَا اِلَي اللهِ اَعْلَاھَا وَاَسْمَتُھَا
خدا کو سب سے زیادہ محبوب قربانی موٹی تازہ اور بلند قامت یا عمدہ قسم کی ہے۔
اور بعض علماء نے تو آیت وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللهِ کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’قربانی موٹی اور عمدہ ہو۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ’’البدن‘‘ کی تفسیر میں ایسا ہی ایک قولِ مجاہد نقل کیا ہے۔ ایک حدیث ترمذی ابو داود میں بھی ہے کہ:
خَيْرُ الْاُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ بہترین قربانی دنبہ ہے۔
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن آپ کا عمل یہی رہا جیسا کہ اکثر سنن نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ:
ضَحّٰي رَسُوْلُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم بِكَبْشَيْنِ اَقْرَنَيْنِ اَمْلَحَيْنِ ذَبَحَھُمَا بِيَدِه