کتاب: محدث شمارہ 13 - صفحہ 10
کہ اس پر اہل علم کا عمل ہے کہ قربانی واجب تو نہیں لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ابن ماجہ کی ایک حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے کیونکہ اس کے الفاظ یہ ہیں : يٰاَيُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلٰي كُلِّ اَھْلِ بَيْتٍ فِيْ كُلِّ عَامٍ اُضْحِيَّةً (لوگو ہر گھر پر ہر سال میں ایک قربانی ہے) لیکن اس حدیث کے راویوں میں ’’امر ابو رملہ‘‘ مجہول راوی ہے اور اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ ہر گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہو گی، نہ یہ کہ ہر شخص کی طرف سے ایک قربانی۔ اس کی تائید ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ عطا بن یسار نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ آپ کے زمانہ میں قربانی کس طرح دی جاتی تھی؟ انہوں نے کہا کہ ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی دیتا، وہ خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے تا آنکہ لوگوں نے اس میں فخر و ریا شروع کر دی یعنی کثرت سے قربانی دینے لگ گئے۔ یہی قول امام احمد رحمہ اللہ ، اسحاق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حدیث (اِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ فَاَرَادَ اَحَدُكُمْ اَنْ يُّضَحِّيَ ) سے بھی استدلال کیا ہے کہ قربانی واجب نہیں کیونکہ اس میں قربانی کو ارادے پر معلق کیا ہے اور وجوب ارادہ کے منافی ہوتا ہے۔ اسی طرح ابن ماجہ کی دوسری حدیث (جس میں عبد اللہ بن عیاش منکر الحدیث راوی ہے) بھی قابل استدلال نہیں ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’مَنْ کَانَ لَه سَعَةٌ وَلَمْ يُضِحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلّٰنَا کہ جس کو گنجائش ہو اور پھر قربانی نہ دے وہ ہمارے عید گاہ میں نہ آئے عبد اللہ بن عیاش کو ابو داود اور نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ منکر الحدیث اور غلط روایت کرنے والا ہے جیسا کہ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے حاشیہ ابن ماجہ میں اور حافظ صاحب نے تقریب التہذیب میں لکھا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے روایت متابعات اور شواہد میں کی ہے۔ اس لئے اس سے توثیق نہیں ہو سکتی، حافظ صاحب رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس روایت کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اکثر ائمہ حدیث کے نزدیک یہ مرفع ثابت نہیں بلکہ موقوف ہے اور صحابہ سے مختلف آثار اس مسئلہ میں مروی ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، ابو مسعود رضی اللہ عنہ