کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 9
اپنا کام کر رہے ہیں قصور تو ہمارا ہے جو ان کی شاطرانہ چالوں سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتے اور جنہیں اپنے فرائضِ منصبی کا احساس تک نہیں ۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ ہی کو لیجئے غیر مسلموں نے آپ کی ذاتِ اقدس پر کس قدر رکیک حملے کئے ہیں ۔ اور اس کے مقابلے میں اپنی قوت دفاع کا اندازہ لگائیے کہ ہم کس قدر تہی دست اور خالی الذہن ہیں ۔ مثلاً ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ’’جب قرآن مجید میں چار سے زیادہ شادیوں کی ممانعت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیک وقت نو بیویوں سے عقد کیوں فرمایا؟ اس ’’سوال سے زیادہ اعتراض‘‘ کا جواب دینے کے لئے آپ اپنے گرد و پیش نظر دوڑائیے اور ذہنِ رسا پر زور دے کر سوچئے کہ کتنے فی صد مسلمان ہم میں موجود ہیں جو اس کا کافی و وافی جواب دے سکیں گے؟ زیادہ سے زیادہ پانچ یا دس فی صد، ورنہ اکثر تو ہم میں ایسے ہوں گے کہ جنہیں اس اعتراض کے وجود کی ہی خبر نہ ہو گی۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے عامۃ المسلمین تعلیمات اسلامیہ سے مستغنی کیوں رہنا چاہتے ہیں اور یا پھر ہمارے علماء دین ہی (الا ماشا اللہ) ان مسائل میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے؟ کیا وہ اس طرح اپنی حمیّتِ دینی اور یرتِ اسلامی کا جنازہ اُٹھتے دیکھ لیں گے؟ یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے دامن بچا لینے کے باوجود وہ ان کے تباہ کن اثرات سے محفوظ رہ سکیں گے؟ (واللہ الموفق) ذیل میں اس اعتراض کا جواب مدلّل طور پر دیا جاتا ہے، تاکہ عامۃ المسلمین استفادہ فرما سکیں ۔ مندرجہ بالا اعتراض کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو اعتراض کی وجہ اور اس کا محرک سمجھنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔ اکبر الٰہ آبادی فرماتے ہیں : کہا منصور نے خدا ہوں میں ڈارون بولا، بو زنا ہوں میں ہنس کے کہنے لگے مرے اک ددوست فکر ہر کس بقدرِ ہمت اوست ایک اقدارِ روحانی کا حامل ذہن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے کسی پہلو