کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 5
ہیں ۔ اس کے لئے کافی سے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاوقتیکہ اس کی خریداری اس حد تک بڑھ جائے کہ وہ اپنا بوجھ خود برداشت کر سکے لیکن موجودہ لا دینیت اور الحاد کے دور میں ایک دینی پرچہ کے لئے فوری طور پر یہ ناممکن ہے کیونکہ اکثر لوگوں کی دلچسپیاں ناولوں ، افسانوں اور جنسی کہانیوں تک محدود ہیں ۔ دینی رسالوں کی خریداری عموماً وہی لوگ گوارا کرتے ہیں جو اپنے دل میں اسلام کی محبت اور اس کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ۔ لیکن اولاً تو ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے،ثانیاً ایسے لوگ عموماً غریب طبقہ سے متعلق ہوتے ہیں اور یا پھر دینی مدارس کے وہ طلباء جو کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ نان شبینہ کے بھی محتاج ہوتے ہیں ، لہٰذا وہ معمولی قیمت کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے۔ اور اکثر پرچہ رعایتی یا غریب فنڈ سے مانگتے ہیں ۔
مالی مشکلات کا واحد حل اشتہارات ہیں ، لیکن سرکاری اشتہارات تو دور کی بات ہے۔ دوسرے کاروباری ادارے بھی اپنے تعلقات اور ذاتی اغراض کے تحت اشتہارات دیتے ہیں اور یہ اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ اصلاحی رسائل ان ’’ذاتی اغراض‘‘ کو پورا کرنے میں کہاں تک ممد و معاون ہو سکتے ہیں ؟
دوسری بڑی چیز جو اس باب میں گراں بہا بوجھ ہے وہ کاغذ کی بڑھتی ہوئی گرانی، اور طباعت کے ناقابل ذکر اخراجات ہیں جو ہر پرچے کو خواہ وہ قرآن و سنت کا ترجمان ہو یا کوئی فلمی رسالہ ہو یکساں ادا کرنے پڑتے ہیں ۔ جبکہ ان کے حلقہ معاونین اور طلبگاروں میں از حد تفاوت ہے۔
تیسری بڑی مشکل یہ ہے کہ محدث کے علاوہ اس کے متعلقہ اداروں مجلس التحقیق الاسلامی اور مدرسہ رحمانیہ کا بوجھ بھی ذمہ دارانِ محدث کے کندھوں پر ہے اور ظاہر ہے کہ اتنا بوجھ کسی فرد واحد یا خاندان کے لئے برداشت کرنا ناممکن نہیں و مشکل ضرور ہے، خصوصاً ان حالات میں جبکہ اپنی مصروفیات کے پیش نظر ہمارے لئے اپنے احباب اور اصحاب ثروت سے رابطہ قائم کرنا بھی آسان نہیں جو شاید اس سلسلہ میں کسی بخل سے کام نہ لیں ۔
بہر صورت ان نامساعد حالات کے باوجود ہم محدث کی کامیابی کے لئے اپنے پورے وسائل بروئے کار لانے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں اور احباب سے اس کی توسیع اشاعت میں بہترین تعاون کے طلبگار ہیں ۔ واللہ الموفق۔