کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 29
وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا[1] (خاص کر) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑیو۔ دراصل بت پرستی، خدانا فہمی اور مقام آدمیت سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ ان کی پختہ زنّاری: انبیاءِ کراہم علیہم السلام کی دعوت اور پاک زندگی میں بلا کی کشش ہوتی ہے، سوز اور اخلاص کا مرقع ہوتی ہے۔ مگر افسوس! یہ قوم اور ہی سخت جاں نکلی، حضرت نوح علیہ السلام کی دوا اور دعاء کی ساری کوششیں ساحل سے ٹکرائیں اور پلٹ گئیں ۔ انہوں نے آپ کی ایک نہ سنی۔ بلکہ آپ کو یہ ٹکا سا جواب دے ڈالا کہ: فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ [2] (جاجا میاں !) اگر تو سچا ہے تو وہ ہم پر دے مار جس کی (دن رات) تو ہمیں دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کی یہ پختہ زناری دیکھ کر رب کے حضور میں فریاد کی:۔ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَي الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ دَيَّارًا۔ اِنَّكَ اِنْ تَذَرْھُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْآ اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۔ [3] الٰہی! کافروں میں سے ایک بھی روئے زمین (زندہ) نہ چھوڑیو۔ اگر تو نے ان کو (زندہ) چھوڑا (تو) یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور جو جنیں گے وہ بھی بدکار اور کٹے کافر ہی ہوں گے۔ عجيب سا جواب: حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے اپیل کی کہ:۔ لَا تَعْبُدُوآ اِلَّا اللهَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ [4] خدا کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کیا کرو۔ مجھ کو تمہاری نسبت ایک دردناک دن کے عذاب
[1] پ ۲۹۔ نوح۔ ع ۲ [2] پ ۲۹۔ نوح۔ ع ۲ [3] پ ۲۹۔ نوح۔ ع ۲ [4] پ ۱۲۔ ہود۔ ع ۳