کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 23
5. عرب کے بدو جو اسلام کے پیروکار ہیں ، جاہل اور غیر متمدن ہیں ، لہٰذا اسلام سچا مذہب نہیں ۔ وغیرہ۔
پہلے اعتراض کا جواب قاضی صاحب نے یوں لکھا:۔
’’جناب من! اگر آپ عیسائیوں کے مندرجہ ذیل بیانات کو صحیح تسلیم کرتے ہیں :
٭ اسرائیل رات بھر خدا کے ساتھ کشتی کرتا رہا۔
٭ یوشع علیہ السلام نے چادر مار کر دریا کو پھاڑ دیا اور اس میں خشک نکل آیا۔
٭ یوشع علیہ السلام کے لئے آسمان سے آتشیں رتھ آیا اور وہ اس میں سوار ہو کر آسمان پر چڑھ گیا۔
٭ یونس علیہ السلام تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہ کر زندہ نکل آئے۔
٭ مسیح علیہ السلام تین دن تک قبر میں مردہ رہ کر پھر زندہ ہوا اور حواریوں کی آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ گیا۔ وغیرہ۔
تو پھر تعجب ہے کہ حضرت ابراہیم کا جلتی آگ سے سلامت نکل جانا کیوں آپ کی ٹھوکر کا سب ہوا۔‘‘ [1]
دوسرے اعتراض کا جواب قاضی صاحب نے یہ دیا ہے کہ:۔
’’اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اپنی طرف سے ہوتیں تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ اس وقت موجودہ اقوام میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ ملاتے لیکن انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہستی اور ان کی تعلیمات کے بارے میں جو تعلیمات دیں ۔ ان سے نہ تو یہودی خوش ہوئے اور نہ عیسائی ہی۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ انسانی تعلیمات ہوتیں تو کسی ایک گروہ کو قریب لانے کے لئے ان کی تمام تعلیمات کو سچا کہہ دیا جاتا۔‘‘
تیسرے اعتراض کا جواب یوں لکھا:۔
[1] مکاتیب سلمان ص4