کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 22
کا پورا خزانہ ہے۔۔۔ مناظرانہ طریقِ تصنیف میں سنجیدگی اور متانت کا برقرار رکھنا سخت مشکل کام ہے۔ مگر جس طرح خود مصنف مرحوم اس وصف میں ممتاز تھے۔ اسی طرح ان کی یہ تصنیف بھی اس وصف میں امتیاز رکھتی ہے۔ پوری کتاب مناظرہ اور اعلائے حق کی رودادوں سے لبریز ہے تاہم کہیں تہذیب اور مذاقِ سلیم کو حرف گیری کا موقع نہیں مل سکتا۔ [1]
قاضی صاحب موصوف کی تصانیف میں بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات، زندگی موسوم بہ ’’اصحاب بدر‘‘ قابلِ قدر تذکرہ ہے اور سفر نامہ حجاز بھی کام کی چیز ہے مگر ’’مکاتیبِ سلمان‘‘ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہمارے موضوع سے زیادہ قریب ہیں ۔ ان مکاتیب کے مخاطبوں میں ہندو، مسلمان، عیسائی، آریہ سماجی اور دیانندی سب ہی شامل ہیں ۔ ان مکاتیب میں وہ مکتوبِ ہدایت بھی شامل ہے جس نے دھرم پال کو غازی محمود میں بدل دیا۔
۱۹۰۶ء میں قاضی موصوف کو ایک خط ملا۔ مکتوب نگار نے لکھا تھا کہ:
’’اگر مجھے تسلی بخش جواب نہ ملا تو میں عیسائی ہو جاؤں گا۔‘‘
قاضی صاحب نے اس کا جواب آدھ گھنٹہ میں لکھ کر حوالۂ ڈاک کر دیا۔ جواب سے مکتوب نگار کو اطمینانِ قلب حاصل ہوا اور استقامت سے دینِ اسلام کی خدمت کرنے لگا۔
مکتوب نگار نے عیسائیت کی طرف مائل ہونے کے اسباب یہ بیان کئے تھے:
1. قرآن مجید میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم کا آگ سے زندہ نکل آنا وغیرہ۔
2. محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم خدا کی طرف سے نہ تھی، اپنی طرف سے تھی۔
3. مسلمان لڑتے جھگڑتے ہیں اور نماز کے مسئلوں کے لئے عدالت میں جاتے ہیں ۔
4. قرآن نے مسیح کو روح اللہ کہا ہے۔ اس سے مسیح کا ابن خدا ہونا مراد ہے۔
[1] دیباچہ رحمۃ للعالمین جلد دوم ص ۹