کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 19
عائشہ رضی اللہ عنہا کے تقریباً سبھی ایک یا دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں ۔ اور جب یہ حقیقت ہمارے پیش نظر ہے تو ظاہر ہے کہ تعدّد ازدواج سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدّعائے اعلیٰ انبیائے سابقین کی سنت پر عمل کرنے کے علاوہ ضروریاتِ ملکی اور مصالحِ دینی پر بھی مشتمل تھا۔ تو ہر ایک شخص کو جو سر میں دماغ اور دماغ میں فہم کا صحیح مادہ رکھتا ہے، یہ اقرار کرنا پڑے گا کہ نبی صلعم کے لئے ایسا کرنا ہی شایانِ شان بلکہ لا بدی اور ضروری تھا۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو بہت سی مصلحتوں سے ملک و قوم اور اسلام کو محروم ہونا پڑتا اور یہ محرومی بلاشبہ اس مصلح قوم کی شان کے منافی ہوتی جسے خدا نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا تھا۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!
واللہ متم نورہ ولو کرہ الکٰفرون
شوال
حج کے مہینوں میں سے یہ پہلا مہینہ ہے، اس میں عید کا دن ہے۔ جو مغفرتِ ذنوب کا دِن ہے، اس روز نماز عید ادا کرنا واجب ہے۔
عید کی نماز سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنی چاہئے۔ ہم نے اس کے احکام کا تفصیلی بیان ’’موعظہ حسنہ‘‘ میں کیا ہے۔ اس نماز سے پہلے یا بعد میں کوئی سنت یا نفل ادا نہیں کئے جاتے۔یہ صرف دو رکعت پر مشتمل ہے۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں ہیں (حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی انہی تکبیرات کو راجح قرار دیا ہے) اور نماز کے بعد دو خطبے ہیں ۔ یہ دونوں خطبے مستحب ہیں ۔ واجب نہیں ، نماز سے پہلے یا بیٹھ کر خطبہ دینا بدعت ہے۔ (اتباع الحسنۃ فی جملۃ ایام السنۃ)