کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 17
راستے میں انہیں عثمان رضی اللہ عنہ بن طلحہ (کلید بردار خانہ کعبہ ملے) جو انہیں کمال شرافت و امانت کے ساتھ مدینہ تک چھوڑ آئے۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ جنگ بدر میں شریک ہوئے اور پھر جنگ احد میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو کر ہی عالم بقا ہوئے۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی شہادت کا بے حد اثر لیا اور انہوں نے ارادہ فرمایا کہ تازندگی اپنے شوہر کا سوگ منائیں گی کہ آئندہ اس کی مثال نہ مل سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب پوچھا۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو کیوں نہ روؤں کیا اس سے بہتر شخص مجھے کوئی مل سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگاتے ہوئے فرمایا،
’’کیوں نہیں ؟ کیا میں ابو سلمہ سے بہتر نہیں ؟‘‘
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد فرما لیا اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قلبِ محزون اور دل مضطر کی تسلی کا سامان کر دیا۔ ظاہر ہے اس شادی میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی خواہش کو کچھ دخل نہ تھا بلکہ اس واقعہ میں آپ کا جذبۂ ترحمّ، ہمدردی اور حد درجہ مہربانی کار فرما نظر آتی ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا سےآپ کی یہ شادی حد درجہ نتیجہ خیز ثابت ہوئی، کیونکہ آپ بے حد ذہین و فطین تھیں ۔ امورِ عامہ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے میں شریک ہوا کرتی تھیں ۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی ’’بظاہر‘‘ حد درجہ کڑی شرائط تسلیم فرما لیں اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو قربانی کا حکم دیا تو صلح کی شرائط سے متاثر پریشان مسلمانوں نے تعمیلِ حکم میں پس و پیش سے کام لیا۔ تو وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں ۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکیمانہ مشورہ دیا کہ ’’آپ خود اپنی قربانی ذبح کر دیں ۔ آپ کی دیکھا دیکھی تمام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کریں گے‘‘ واقعات شاہد ہیں کہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا یہ اندازہ سو فیصدی درست ثابت ہوا۔