کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 16
ہو گیا اور ایک غلط معاشرہ کی پروردہ غلط رسم کا خاتمہ ہو گیا۔ اب اسلام نے عملاً یہ ثابت کر دکھایا کہ متبنّٰی (منہ بولا بیٹا) حقیقی بیٹے کی جگہ کسی صورت نہیں لے سکتا۔ نہ ہی وراثت میں حقیقی بیٹے کی طرح حصہ دار بنایا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی متبنّٰی کی مطلقہ بیوی، بیٹا بنانے والے پر حرام ہوتی ہے۔ ہاں حقیقی بیٹے کی بیوی باپ پر قطعاً حرام ہے۔ اور حضرت زید رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی ہونے کے باوجود حقیقی بیٹے کی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح کرنے میں کوئی جھجھک مانع نہ ہونی چاہئے۔ یہ تھی وہ مصلحتِ دینی جس کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے عقد فرمایا۔ کیا کوئی بھی ذی ہوش اس شادی کی افادیت سے انکار کر سکتا ہے؟ قصہ تزویج حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا اور اس کا بنیادی سبب: حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں ۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام تھے۔ کفارِ مکہ کی سختیوں سے تنگ آکر انہوں نے ہجرتِ مدینہ کا قصد فرمایا۔ لیکن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے والدین نے، جو کافر تھے، ان سے ان کے بیٹے سلمہ کو چھین لیا کہ خود جہاں جی چاہے جاؤ ہم سلمہ کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجیں گے۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے والدین نے بھی اپنی بیٹی (اُم سلمہ رضی اللہ عنہا ) کو ان کے ساتھ بھیجنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ایک مسلمان کے ساتھ ہم اپنی بیٹی کو نہیں بھیج سکتے۔ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے لئے بیٹے اور بیوی سے علیحدگی کا تصور بھی ہولناک تھا۔ لیکن صبر و استقامت کا یہ پیکر اللہ کے دین کی خاطر ان دونوں کو مکہ میں چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اب حضرت اّم سلمہ رضی اللہ عنہا مکہ میں اکیلی تھیں ۔ وہ ہر روز شام کو اس مقام پر، جہاں سے ان کو ان کے شوہر اور بچہ سے جدا کیا گیا تھا، جا کر روتی رہیں۔ یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا تب جا کر ان کے ظالم والدین کو ان کی حالت پر رحم آیا۔ اور انہوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کو مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے بچے کو لے کر تن تنہا مدینہ کے لئے روانہ ہو گئیں ۔