کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 14
میں آگئے۔[1] کچھ عرصہ بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد اور چچا جو ان کی تلاش میں تھے ٹوہ لگاتے لگاتے مکہ معظمہ پہنچ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ زید رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا جائے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اپنے اس غلام کے ساتھ اس قدر مشفقانہ تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے والدین کے ساتھ جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو ترجیح دی اور اس طرح حضرت زید رضی اللہ عنہ مستقل طور پر دامنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہو کر رہ گئے۔ مندرجہ بالا واقعات شاہد ہیں کہ دنیاوی رسوم کے مطابق حضرت زید رضی اللہ عنہ بلاشبہ ایک غلام تھے۔ غلام۔ ایک تحقیر آمیز لفظ، دورِ جاہلیت کے ظلم و ستم کی ایک زندہ تصویر، آزاد ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہونے والے شخص کی ذہنی، جسمانی اور عملی، آزاد صلاحیتوں کا جمود اور تعطّل! لیکن دانایانِ فرنگ ہمہ تن گوش ہوں ، اسلام کو ’’آزادی کا دشمن‘‘ اور غلامی کا موجد،[2] جیسے خطابات سے نوازنے والے دل تھام لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پورے کنبے کی مخالفت کے باوجود، زمانے کی ساری مخالف قوتوں سے ٹکرا کر، رسومِ جاہلیت کے بت کو پاش پاش کر کے اپنے اس غلام کی شادی، ایک آزاد عورت، وقت کے سبب سے معزز قبیلہ قریش کی معزز خاتون اور اپنی سگی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے کر دیتے ہیں ۔ خاندان کی آن کے محافظ چیختے ہیں ۔ رسم و رواج، سماج اور معاشرہ بیک آواز ہو کر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔ کبر و نخوت کے دیو چنگھاڑتے ہیں، لیکن عزیمت و وقار کا یہ مجسم، صلح و آشتی کا یہ پیام بر، شفقت و رحمت کا یہ بحرِ ناپید کنار، اپنے ایک ہی ریلے میں ان تمام مخالف قوتوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر غرق کر ڈالتا ہے۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ ابھی ایک اور اس سے سخت آزمائش باقی ہے۔
[1] انہیں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیا تھا۔ ۱۲ منہ۔ [2] عنقریب اس موضوع پر بھی ایک مقالہ لکھا جائے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔