کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 12
خلاف کفار نے لڑیں ان میں سرّاً یا علانیۃً یہود کا تعلق ضرور ہوتا تھا۔ لیکن چونکہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نسب یہود ابن یعقوب تک منتہی ہوتا ہے۔ لہٰذا تزویجِ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بعد یہود مسلمانوں کے خلاف کسی جنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ دیکھئے یہ نکاح کس قدر ضروری تھا۔ اور یہود کورام کرنے کا یہ کس قدر مؤثر اقدام تھا۔ بلاشہ یہود کی مخالفت مسلمانوں کے لئے دردِ سر بنی ہوئی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس امر کا احساس تھا کہ اگر یہود اسلام کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں تو ترویج و ترقی اسلام میں بہت سی رکاوٹیں از خود دور ہو سکتی ہیں ۔ تزویج اُمّ المؤ منین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا اور اس کے فوائد: اُمّ المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ابو سفیان کی بیٹی تھیں ۔ جو عمائد قریش میں سے تھا اور قوم کا نشانِ جنگ اس کے گھر میں رکھا رہتا تھا۔ جب یہ نشان باہر کھڑا کیا جاتا تو تمام قوم پر آبائی ہدایات اور قومی روایات کے اتباع میں لازم ہو جاتا تھا کہ سب کے سب اس جھنڈے کے نیچے فوراً جمع ہو جائیں اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔ احد، حمراء الاسد، بدر الاخریٰ اور احزاب وغیرہ کی لڑائیوں میں ابو سفیان ہی اس نشان کو لئے ہوئے قائدِ قریش بنا مسلمانوں کے خلاف صف بستہ نظر آتا ہے۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دور اندیشی کی بنا پر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو ابو سفیان نہ صرف مسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرتا نظر نہیں آتا بلکہ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد خود بھی اسلام کے جھنڈے تلے آ کر پناہ لیتا ہے۔ کیا اب بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ نکا غیر ضروری اور دُور از مصلحت تھا۔ نکاح اُمّ المؤمنین جویریہ رضی اللہ عنہا اور امنِ عامہ: ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا کے نکاح میں جو مصلحت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ ان کا باپ مشہور رہزن ڈکیتی پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے خاص دلی عداوت رکھتا تھا۔ بنو مصطلق کا مشہور طاقتور اور جنگ جُو قبیلہ، جو چند در چند شعوب پر محتوی تھا۔ اس کے اشارہ پر کام کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس تزویج سے پیشتر ہر ایک جنگ میں جو مسلمانوں کے خلاف ہوئی،