کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 11
اور جس نے اپنی سیرت و کردار کا ایک ایسا عملی نمونہ پیش کیا ہو کہ تمام دنیا کیلئے مشعل راہ بن جائے، ایسے شخص کی نسبت اعلیٰ رائے قائم کرنے میں کون سی چیز مانع ہے؟ جس مقدس ہستی نے ۲۵ سے ۵۰ سال تک کی عمر کا زمانہ ایک ایسی خاتون کے ساتھ بسر کیا ہو جو عمر میں ان سے ۱۵ سال بڑی اور ان سے پیشتر و شوہروں کی بیوہ رہ کر کئی بچوں کی ماں بن چکی ہو اور معمر ہو چکی ہو اور پھر اس مدّتِ تزویج کے پورے زمانہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دل بستگی و محبت میں ذرا کمی نہ آئی ہو بلکہ اس خاتون کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی یاد کو تازہ رکھا ہو، کیا ایسی ہستی کی نسبت کوئی شخص کہہ سکا ہے کہ (حاکم بدہن) اس تزویج کی وجہ وہی تھی۔ جو عام طور پر پرستارانِ حسن کی شادیوں میں اکثر پائی جاتی ہے؟ اور یا جو دانایانِ فرنگ کی عقل کا ماتم کرتی ہوئی نظر آتی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں سے (۵۵ تا ۵۹ سال کی درمیانی مدت کا) پنج سالہ زمانہ ایسا ہے۔ جب ازواج مطہرات سے حجرات آباد ہوئے تھے اور ظاہر ہے یہ عمر شادی کے لئے کسی صورت موزوں نہیں سمجھی جاتی، خصوصاً جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی موجود ہے کہ ما لی فی النساء حاجةٌ (مجھے عورتوں کی کوئی حاجت نہیں ) تو اس صورت میں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر نکاح کئے ان کی بنیاد فوائدِ کثیرۂ دین، مصالح جمیلۂ ملک اور مقاصدِ حسنۂ قوم پر قائم تھی اور ان فوائد، مصالح اور مقاصد کا حصول اس قدیم ترین زمانہ اور عرب جیسے جمود پسند اور روایت پسند ملک میں تزویج کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ [1] اُمٌ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا مقصدِ حسنہ: ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے نکاح پر غور کیجئے، اس سے پیشتر جس قدر لڑائیاں مسلمانوں کے
[1] نپولین بونا پارٹ کی دوسری شادی پر غور فرمائیے جو خاص پوپ کی موجودگی میں صرف اس لئے ہوئی کہ بونا پارٹ کی نسل باقی رہے۔ اس شادی کو سارے یورپ نے تسلیم کیا۔ حالانکہ اس شادی کا مقصد ان مصالح کے مقابلے میں جو انبیائے خدا کی تزویج میں ہوتے ہیں‘ ذرۂ بے مقدار کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔