کتاب: محدث شمارہ 12 - صفحہ 10
کو بھی اسے فعلِ رسول کی حیثیت دیتے ہوئے قال تنقید و اعتراض نہیں سمجھتا۔ اس کے لئے تو با وثوق ذرائع سے یہ معلوم کر لینا ہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کام کیا۔ اور اس کے بعد وہ اس پر، ’’آمنّا وصدّقنا‘‘ کی مہر تصدیق ثبت کر دیتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن میں ’’کیوں ‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات کی قطعاً گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ وہ بخوبی سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول اور ہر فعل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ قرآن مجید اس کی شہادت یوں بیان فرماتا ہے:
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھَويٰ۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْيُ يُّوْحٰي۔
اسے ایک صحيح العقيده مسلمان كا عقيده سمجھ ليں يا اسے مسلمانوں كی كمزوری كا نام دیجئے کہ وه آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے ہر فعل کی وجہ جواز كو نظر انداز كر ديتے ہيں ۔ بہرحال یہی وه چيز ہے جس سے معاندينِ اسلام نے ناجائز فائده اُٹھايا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی ذاتِ اقدس کو ہدفِ تنقید بنانے کی ناپاک جسارت کی۔ چنانچہ ایک مادہ پرست ذہن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کا جائز لیتا ہے۔ دریں حالیکہ اس نے اپنی آنکھوں پر تعصب کی عینک بھی چڑھا رکھی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ق۲قول اور فعل کو روحانیت اور مصلحت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے مادیت کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیک وقت نو بیویوں سے عقد فرمانے میں ان مادہ پرستوں کی کوئی مصلحت جو کہ ظاہر و باہر ہے نظر نہ آئی اور انہوں نے اسے مقتضائے جسمانی کا سبب قرار دیا۔ کیوں نہ ہو، كُلُّ اِنَاءٍ يَتَوَشَّحُ بِمَا فِيْهِ !
اس نا انصافی اور صریح ظلم کا پول کھولنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا بغور جائزہ لیا جائے۔ اور ان مصالح سے واقفیت حاصل کی جائے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعلِ حسنہ میں پوشیدہ تھیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ۶۳ سال میں ابتدائی ۲۵ سال کمال تجردّ سے گذرتے ہیں ۔ جس بزرگ نے ۲۵ سال تک عین عنفوانِ شباب اور جوشِ جوانی کا زمانہ کمال تقویٰ اور نہایت ورع کے ساتھ پورا کیا ہو اور جس کے حسنِ مردانہ کے کمال نے اعلیٰ سے اعلیٰ خواتین کو اس سے تزویج کا آرزومند کر دیا ہو، اس کے باوجود بھی ربع صدی تک اس کے تجردّ و تفردّ پر کوئی شے غالب نہ آئی ہو،