کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 9
کا ہونا ذِکر کیا ہے۔
احادیث میں بھی پہلی امتوں اور پیغمبروں کے روزوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مذکورہ بالا بیان سے روزے کی عالمگیر اور بین الاقوامی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔
روزہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں :
امت محمدیہ کے لئے روزہ دو قسم کا ہے۔ (۱) نفلی (۲) فرضی۔ نفلی روزہ رمضان اور عیدین کے علاوہ کسی بھی موقع پر رکھا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہدایات اور شرائط کتبِ مسائل و احکام میں موجود ہیں ۔ فرضی روزہ بھی کئی طرح کا ہے۔ رمضان کا روزہ اور کفارے وغیرہ کا روزہ۔
یہاں میرا مقصد ماہِ رمضان کی مناسبت سے رمضان کے روزے کا بیان کرنا ہے۔ اس کی فرضیت کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور اجماع سے ثابت ہے۔
روزہ کی فرضیت:
ابتدائے اسلام میں سال بھر میں صرف ایک روزہ تھا۔ پھر بتدریج رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ چنانچہ بخاری شریف کتاب الصوم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ عرب عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم دیا۔ جب رمضان فرض ہوا تو جو عاشورے کے دِن چاہتا روزہ رکھ لیتا اور جو چاہتا افطار کر لیتا۔ عاشورہ کی فضیلت عرب میں معروف تھی، چنانچہ بقول علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ عرب ۱۰ محترم کو جسے عاشورہ کہتے ہیں روزہ رکھتے تھے۔ اسی روز خانہ کعبہ پر غلاف بھی چڑھاتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتح الباری ج ۳ ص ۳۶۷ بحوالہ زرقی ذکر کیا ہے کہ حضرت امیر معاویہ نے عاشورہ کے روز خانہ کعبہ کو غلاف چڑھایا۔
جب ہجرت کا حکم ہوا تو معلوم ہوا کہ یہودی بھی یہ روزہ رکھتےتھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ یہ کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دشمن (فرعون) سے نجات دی تھی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے (ازراہِ تشکر) یہ روزہ رکھا۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام سے میرا تعلق تم سے بڑھ کر ہے اس لئے مسلمانوں کو روزہ رکھنے کی زیادہ تاکید [1]
[1] کیا اس سے مراد صرف تاکید تھی یا فرضیت مراد تھے؟ علما کے دونوں قول ملتے ہیں۔ جمہور اور شافعیہ میں مشہور یہی ہے کہ رمضان س پہلے کبھی کوئی روزہ فرض نہیں تھا البتہ ۔۔۔۔۔ بعض شوافع کا قول ہے کہ رمضان سے پہلے عاشورے کا روزہ فرض تھا۔ رمضان کا حکم آنے پر اس کی فرضیت منسوخ ہو گئی (فتح الباری)
اب عاشورے کا روزہ مستحب ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے۔ ’’یہ روزہ (عاشورہ) تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزے دار ہوں جو چاہے رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔‘‘