کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 8
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ تَزَوَّجُوْا فَاِنَّہ اَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَاَغَضُّ لِلْبَصَرِ فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہ لَہ دِجَاءٌ۔
نوجوانو! شادی کرو کیونکہ یہ شرم گاہ کی حفاظت اور بد نظر سے بچاؤ کی بہت ممد و معاون ہے۔ اگر نکاح کی طاقت نہ ہو تو روزے رکھو کہ یہ خصی ہونے کے مترادف ہے (کیونکہ اس سے شہوت بہ کم ہو جاتی ہے)۔
یعنی روزے کا اصل مدعا یہ ہے کہ انسان برائی سے بچنے کی مشق کرے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں یوں ذکر ہے ’’یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔‘‘
ایمان دارو! تم پر پہلی امتوں کی طرح روزے فرض ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
متقی اور پرہیز گار وہی ہوتا ہے جو ممنوعات سے پرہیز کرتا ہے۔ مسنون اعمال کرتا ہے۔ مسنون اعمال کو حرز جاں بناتا ہے اور یہ وہ رنگ و بو ہے جو صرف روزہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔
روزہ کی عالمگیر حیثیت:
مذکورہ بالا آیات میں کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ سے روزے کی عالمگیر حیثیت ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی روزہ پہلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے اور تاقیامت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض کر دیا گیا ہے۔ تاریخ عالم کے مطالعہ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایک مورخ کا کہنا ہے، دنیا میں آج تک جتنے بھی مذاہب گزرے ہیں روزہ کسی نہ کسی صورت میں سب میں موجود رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات اترنے سے پہلے (چالیس) روزے رکھے۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے وحی سے قبل غارِ حرا میں روزے رکھا کرتے تھے اور پہلی وحی کے وقت بھی آپ روزہ سے تھے۔ بدھ مت کے بانی گوتم بدھ [1]کو جب گیان (روشنی) نصیب ہوا تو وہ روزہ سے تھا۔
علامہ فرید وجدی نے دائرۃ المعارف الاسلامیہ میں افریقی جنگلات کے باسیوں میں بھی روزے
[1] بعض نے ذوالکفل اور گوتم بدھ کو ایک آدمی بتایا ہے کیونکہ گوتم بدھ کی پیدائش ریاست کپل دستو میں ہوئی اور کفل دراصل کپل تھا یعنی ذوالکفل سے مرد کپل دستو والا ہے لیکن اس کی زندگی اور عقیدہ، جو تاریخ ہمیں بتا رہی ہے ایک پیغمبر کی زندگی اور عقیدے سے مختلف ہے۔ واللہ اعلم ۱۲ منہ۔