کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 7
مصنف ہدایہ کے فاضل استاذ عبد الرحمن بخاری (متوفی ۴۵۶ھ) فرماتے ہیں : روزہ سے مراد پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات سے رُک جانا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (متوفی ۴۵۶ھ) نے مراتب الاجماع میں ان چیزوں (کھانا، پینا اور جماع) کو متفق علیہ شمار کیا ہے۔ سیاق قرآن مجید کا بھی یہی حاصل ہے۔ روزے کا مدعا: جب روزے دار کے لئے غروب آفتاب سے لے کر طلوعِ فجر تک حلال چیزیں بھی روزہ کے وقت (طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک) حرام ہو جاتی ہیں تو جو چیزیں ہمیشہ سے حرام تھیں ان سے پرہیز کرنا کس قدر ضروری ہے؟ اس طرح روزہ کی ظاہری صورت سے مقصد اس کی حقیقت (حرام سے تقویٰ) کی تربیت دینا ہے۔ چنانچہ انسان کو جب بھوک ستاتی ہے، پیاس بے حال کرتی ہے تو جذبات کا جنون ختم ہو جاتا ہے۔ ادھر نفسانی خواہشات کے دبانے سے نفس زیر ہوا ہے اُدھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے کبار شیاطین رمضان میں قید ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح حق کی تابعداری آسان ہو جاتی ہے۔ نفس کے زیر ہونے پر ضمیر جاگ اُٹھتا ہے۔ احکام، ربانی کی وقعت اس کے دل و دماغ میں گھر کر جاتی ہے۔ ضمیر کہتا ہے خواہ تجھے پیاس ستائے پانی پینے کی اجازت نہیں کہ تمہارا خالق تمہیں دیکھ رہا ہے۔ وقت سے پہلے پی لیا تو ناراض ہو ا۔ کھانا بھی چھوڑنا ہو ا۔ کہیں حکم عدولی نہ ہو۔ زبان سے بری باتیں اور اعضائے جسمانی سے برے کام صادر ہوئے تو نہ صرف بھوک پیاس کا ثواب جاتا رہے گا بلکہ گناہ ہو گا۔ [1] اور جو شخص روزے کے حقوق کا دھیان رکھتا ہے اسے اپنے نفس پر آہستہ آہستہ کنٹرول ہو جاتا ہے اور وہ برائیوں سے بچتا ہے گناہوں سے صبر کرتا ہے حتٰی کہ ایک نوجوان انسان جو حسن و شباب کی رنگ رلیوں کے تصور میں پھر رہا ہے ۔ لیکن جائز ذرائع اسے میسر نہیں آرہے تو گناہوں سے بچنے کے لیے اسے بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ گناہ کی طرف متوجہ نہ ہو اور زنا کی ہر سٹیج سے محفوظ رہے ۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[1] سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَمَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ لِلہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔ جو شخص غلط بیانی جھوٹ اور بکواس بند نہ کرے اس سے کھانا پینا چھڑانا خدا کے ہاں بے معنی ہے۔