کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 6
روزہ
مولانا عبد السلام کیلانی فاضل مدینہ یونیورسٹی ترتیب و اضافہ: ادارہ
لغوی معنی:
قرآن مجید، حدیث نبوی اور عربی لغت میں روزے کے لئے لفظ صوم استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ کسی چیز کا نام رکھتے وقت اس کے اصلی وصف کا پورا لحاظ ہوتا ہے۔ یہی حال صوم کا ہے جس کے اصلی معنی رکنے کے ہیں ۔ چنانچہ امام لغت ابو عبیدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کُلُّ مُمْسِکٍ عَنْ طَعَامٍ اَوْ کَلَامٍ اَوْ سَیْرٍ فَھُوَ صَائِمٌ
کھانے، بولنے اور چلنے سے رکنے والے کو صائم کہتے ہیں ۔
چند عربی محاورات بطور مثال ملاحظہ فرمائیں ۔
صَامَ الْفَرَسُ۔ گھوڑا چارہ کھانے سے رُک گیا، صَامَ النَّھَارُ۔ دوپہر ہونے کی وجہ سے (مسافر سفر سے) رک گیا۔ مَاءٌ صَائِمٌ بہنے سے رکا ہوا پانی، صَامَ الرِّیَاحُ ہوائیں رک گئیں ۔
قرآن مجید میں ہے۔ ’’اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحمٰنِ صَومًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّا‘‘ میں نے رحمان کے لئے (چپ رہنے کی) نذر مانی ہے اس لئے آجمیں کسی انسان سے کلام نہیں کروں گی۔ (مختار الصحاح وغیرہ)
شرعی معنی:
شرع میں روزہ اللہ کی رضا کے لئے پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات سے رکنے کا نام ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۷۷۴ھ) فرماتے ہیں :
ھُوَ الْاِمْسَاکُ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَالوِقَاعِ بِنِیَّۃٍ خَالِصَۃٍ لِلہِ عَزَّوَجَلَّ لِمَا فِیْہِ مِنْ زَکٰوۃٍ النُّفُوْسِ وَطَھَارَتِھَا وَتَنْقِیَتِھَا مِنَ الْاَخْلَاطِ الرَّدِیَّۃِ وَالْاَخْلَاقِ الرَّذِیْلَۃِ
خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کھانے پینے اور مجامعت سے رک جانے کا نام روزہ ہے جس سے تزکیہ نفس، تنقیہ سوء مزاج اور بری عادات سے درستگی حاصل ہوتی ہے۔