کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 53
ضرورتِ قرآن اور اس كے فضائل
حضرت مولانا محمد صاحب كنگن پوری ترتيب: اكرام الله ساجدؔ
ضرورتِ قرآن:
موجودات کی دو قسمیں ہیں ، خالق اور مخلوق۔
ایک مختار مطلق ہے اور دوسرا محتاج مطلق، ایک مجسمۂ کبر و غنیٰ اور دوسرا سراپا عجز و نیاز، ایک علیم و خبیر او دوسرا بے علم و نادان۔ [1]
ملائکہ، جنات او انسان سب مخلوقات میں سے افضل و اعلیٰ ہیں جن میں سے ملائکہ تو خود ہی اپنے ادنیٰ مبلغ علم کے معترف ہیں ۔
سُبْحَانَكَ لَا عَلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اَلْاٰيَةَ (البقرة: ۳۲)
’’یعنی اے اللہ تو پاک ہے، ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔‘‘
اور جنات اپنی کوتاہ بینی کا یوں اعتراف کرتے ہیں ۔
وَاِنَّا لَا نَدْرِيْ اَشَرٌّ اُرِيْدَ بِمَنْ فِيْ الْاَرْضِ اَمْ اَرَادَ بِھِمْ رَبُّھُمْ رَشَدًا (الجن: ۱۰) [2]
[1] خالق كے عليم و خبیر اور مخلوق کے بے علم محض ہونے پر قرآن کریم کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِه اِلَّا بِمَا شَاءَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس کائنات کے اگلے پچھلے حالات سے واقف ہیں لیکن مخلوق میں سے کوئی بھی اللہ کے بتائے بغیر کچھ نہیں جانتا (البقرہ: ۲۵۵)
[2] بعض لوگ خيال كرتے ہيں كہ جنات غيب كي باتيں جانتے ہيں، حالانكہ یہ غلط ہے۔ قرآن مجيد جنات كی نادانی پر ناطق ہے۔ سورة السبا میں ہے: فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّھُمْ عَلٰي مَوْتِه اِلَّا دَآّبَةُ الْاَرْضِ تَاكُلُ مِنْسَاَتَه فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِشُوْا فِيْ الْعَذَابِ الْمُھِيْنِ (۱۴:۳۴) حضرت سلمان علیہ السلام نے جنات کو مسجد کی تعمیر پر مامور کیا اور خود نگرانی کے لئے ایک عصا سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو وفات دے دی، لیکن جن یہی سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اور مسلسل نرانی فرما رہے ہیں، یہاں تک کہ دیمک نے آپ کی لاٹھی کو کھا لیا اور لاٹھی کے ٹوٹ جانے کے باعث آپ زمین پر گر گئے یہاں تب جنات کو حقیقت حال کا علم ہوا اور انہوں نے کہا، کاش ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ زندہ نہیں ہیں تو ہم (مسجد بنانے میں) اس قدر تکلیف نہ اُٹھاتے۔