کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 52
وغیرہ کی صحیح احادیث میں گزر چکا ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی رسالہ ’’المصابیح فی صلوۃ التراویح‘‘ میں امام مالک سے نقل کرتے ہیں ۔
قَالَ الْجُوْدِيُّ [1]مِنْ اَصْحَابِنَا َ مَّالِكٍ اِنَّه قَالَ الَّذِيْ جَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَحَبُّ اِلَيَّ وَھُوَ اِحْدٰي عَشَرَةَ رَكَعَةً وَّھِيَ صَلٰوةُ رَسُوْلِ اللهِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قِيْلَ لَه: اِحْدٰي عَشَرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ قَالَ: وَلَا اَدْرِيْ مِنْ اَيْنَ اُحْدِثَ ھَذَا الرُّكوْعُ الْكَثِيْرُ۔
ہمارے اصحاب میں سے جوری مالك سے نقل كرتے ہیں کہ وه فرماتے ہيں ۔ جس شی پر حضرت عمر بن الخطاب نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ وہ میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور وہ گیارہ رکعت ہیں ۔ یہی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نماز ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کیا گیارہ رکعت بمعہ وتر؟ فرمایا: ہاں اور تیرہ رکعت بھی قریباً اور فرمایا میں نہیں جانتا کہ یہ کثرت تعداد رکعت کہاں سے بدعت نکال لی ہے۔
مندرجہ بالا ساری بحث سے ثابت ہوا کہ رکعات تراویح میں سنت نبوی اور تعاملِ صحابہ[2] آٹھ رکعت ہے۔
بعض علماء نے سنت نبوی آٹھ ركعت تسليم كر لينے كے باوجود صحابہ سے بيس ركعات ثابت كرنے كی كوشش كی ہے۔ ان روایات کا ضعف ناظرین ملاحظہ فرما چکے ہیں ، نیز یہ بات قابل غور ہے کہ آٹھ رکعت سنت نبوی ثابت ہو جانے کے بعد بعض صحابہ کا عمل[3] اگر بالفرض وہ زیادہ ثابت کر بھی دیں تو اس کی کیا پوزیشن ہو گی؟ انہیں اِنَّ خَيْرَ الْھَدْيِ ھَدْيُ مُحَمَّدٍ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مد نظر رکھنا چاہئے۔ صحابی شارع نہیں ہوتا کہ وہ مستقلاً قابل اتباع ہو۔ ھٰذَا مَا عِنْدِيْ وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
[1] بعض ناقلين نے جوزی بالز اور بعض نے ابن الجوزی لكھا ہے حالانکہ صحيح جوری بالراء المہملہ ہے۔ چنانچہ طبقات الشافعیہ ابن سبکی میں ہے: لجُوْرِيُّ بِضَمِّ الْجِيْمِ ثُمَّ الْوَاوِ السَّاكِنَةِ ثُمَّ الرّاءِ نِسْبَةٌ اِلٰي جُوْرً بَلْدَةٌ مِّنْ بِلَادِ فَارِسَ۔
[2] فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ کے شارح امام لحنفیہ ابن الہمام فرماتے ہیں: اِنَّ مُقْتَضٰي الدَّلِيْلِ كَوْنُ الْمَسْنُوْنِ فِيْھَا مِنْھَا ثَمَانِيَةً (فتح القدير ج ۲ ص ۳۳) یعنی دلیل شرعی سے مسنون رکعات تراویح آٹھ ہی ہیں۔
[3] واضح رہے کہ یہ ساری بحث سنیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے رکعات کی تعداد مسنون کے متعلق ہے ورنہ اگر کوئی شخص سنت مؤکدہ کے ارادہ سے آٹھ پڑھ کر بہ نیت نوافل جس قدر زیادہ پڑھنا چاہے اس کے لئے جائزہ ہے جن کا اجراء سے الگ ملے گا مگر ان نوافل کے کوئی تعداد مقرر (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یا صحابہ سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ سے مختلف تعداد میں نوافل نقل کئے جاتے ہیں۔ مثلاً چھتیس اور چالیس۔ چنانچہ امام ابن الہمام فرماتے ہیں والْبَاقِیْ مُسْتَحَبًّا یعنی آٹھ سے زیادہ مستحب رکعات ہیں (ادارہ)