کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 51
کی ہیں اس لئے یزید بن خصیفہ کی روایت شاذ[1] ہونے کی وجہ سے۔
ج۔ یہ روايت مضطرب ہے۔ شيخ ناصر الدين البانی اپنی كتاب ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں روایت نقل فرماتے ہیں ۔ فَقَالَ اِسْمٰعِيْلُ بْنُ اُمَيَّةَ: اِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ ابْنَ اُخْتِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ اَخْبَرَه (قُلْتُ: فَذَكَرَ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ عَنِ ابْنِ يُوْسُفَ ثُمَّ قَالَ ابنُ اُمَيَّةَ): قُلْتُ: اَو َاحِدٍ وَّعِشْرِيْنَ؟ قَالَ (يَعْنِيْ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ): لَقَدْ سَمِعَ ذٰلِكَ مِنَ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ ابْنُ خَصِيْفَةَ، فَسَأَلْتُ (السَّائِلُ ھُوَ اِسْمَاعِيْلُ بْنُ اُمَيَّةَ) يَزِيْدَ بْنَ خَصِيْفَةَ؟ َقَالَ: حَسِبْتُ اَنَّ السَّائِبَ قَالَ: اَحَدٍ وَّعِشْرِيْنَ: قُلْتُ: وَسَنَدُه صَحِيْحٌ۔
یعنی جب اسماعيل بن امیہ نے یزید بن خصیفہ سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے گمان [2]ہے (یعنی یقین نہیں ) کہ سائب بن یزید نے اکیس رکعات کہا ہے (سند صحیح ہے) یہ حنفیہ پر حجت ہے کیونکہ تین وتر کی صورت میں رکعات تراویح اٹھارہ ۱۸ رہ جائیں گی۔ اس طرح یزید بن خصیفہ کی روایت میں بیس ۲۰ اور اٹھارہ ۱۸ کی وجہ سے اضطراب ہو گا۔
دیگر کئی آثار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف نسبت کئے جاتے ہیں لیکن وہ سب متکلم فیہ ہیں ۔ ایسے ہی بعض آثار حضرت علی، ابی بن کعب اور عبد اللہ بن مسعود کی طرف منسوب ہیں لیکن کوئی بھی جرح وقدح سے خالی نہیں ۔
اس لئے اقرب الی الصواب یہی ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و جابر رضی اللہ عنہ
[1] حافظ ابن کثیر نے امام شافعی سے شاذ کی تعریف یہ نقل کی ہے۔
وَھُوَ اَنْ يَرْوِي الثِّقَةُ حَدِيْثًا يُّخَالِفُ مَا رَوٰي النَّاسُ اور تقریب نووی میں ہے۔ فَاِنْ كَانَ بِتَفَرُّدِه مُخَالِفَا احفط منهُ َاَضْبَطَ كَانَ شَاذًّا مَّرْدُوْدًا
حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں محمد بن یوسف کو ثقہ ثبت اور یزید بن خصیفہ کو صرف ثقہ کہتے ہیں۔ ان کے نقابلی الفاظ میں محمد بن یوسف کا زیادہ ثقہ ہونا واضح ہے۔
[2] اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیس رکعات وتر سمیت (۱+۲۰) اور بیس رکعات وتر بغیر یزید بن خضیفہ کا صرف گمان ہے جب کہ محمد بن یوسف کو گیارہ پر یقین ہے۔ اسمٰعیل ابن امیہ (سائل) نے بھی ابن یوسف پر ہی اعتماد کیا ہے جیسا کہ اس کی گیارہ رکعت والی روایت (عند النیسا بوری) سے ظاہر ہے۔