کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 43
رکعت سے زیادہ نہیں تھا۔ حدیث (۳): تحفۃ الاحوذی میں بحوالہ ابو یعلی جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے۔ جَاءَ اُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ اِلٰي رَسُولِ اللهِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اِنَّه كَانَ مِنِّيْ اللَّيْلَةَ شَئٌ يَعْنِيْ فِيْ رَمَضَانَ قَالَ: وَمَا ذَاكَ يَا اُبَيُّ، قَالَ: نِسْوَةٌ فِيْ دَارِيْ قُلْنَ: اِنَّا لَا نَقْرَءُ الْقُرْاٰنَ فَنُصَلِّيْ بِصَلَاتِكَ قَالَ: فَصَلَّيْتُ بِھِنَّ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ َاَوْتَرْتُ فَكَانَتْ سُنَّةَ الرِّضَا وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا: قَالَ الْھَيْثميُّ فِيْ مَجْمَ الزَّوَائِدِ: اِسْنَادُه حَسَنٌ۔ ابی بن کعب رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس حاضر ہوئے۔ عرض کی یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رمضان ميں آج رات مجھ سے ايك (عجيب) كام ہوا، آپ نے فرمایا وہ کیا؟ عرض کی ہمارے گھر میں عورتوں نے مجھ سے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتیں اس لئے ہم تیرے ساتھ نماز پڑھیں گی۔ پس میں نے انہیں آٹھ رکعات (تراویح) پڑھائیں اور ور پڑھے۔ پس راوی کا بیان ہے کہ یہ طریقہ پسند کیا گیا اور آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن ہے۔ مندرجہ بالا تین احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز تراویح آٹھ رکعت ہی سنت ہے۔ بیس تراویح کی حقیقت: بیس تراویح رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یا کسی صحابی مثلاً عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ وغیرہ سے ثابت نہیں اس سلسلہ میں جو احادیث پیش کی جاتی ہیں اس کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں ۔ اس سلسلہ میں سنن [1]کبریٰ بیہقی کی ايك روايت عبد الله بن عباس سے مرفوعا بیان کی جاتی ہے جو یہ ہے:
[1] بہ روایت مصنف ابن ابي شيبه، عبد بن حميد في المنتخب من المسند، طبراني في المعجم الكبير وفي المعجم الاوسط والمنتقي منه للذھبي والجمع بينه وبين الصغير لغير الطبراني وابن عدي في الكامل والخطيب في الموضح