کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 34
پس نماز وتر میں دعائے قنوت کے متعلق بعد از رکوع کی تصریح حدیث میں آگئی ہے اس لئے وتروں میں اس حکم پر عمل کرنا چاہئے۔
دعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا:
دُعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو قیام مروزی وعون المعبود وغیرہ)
پس ہاتھ اُٹھانے اور نہ اُٹھانے میں اختیار ہے اور مقتدیوں کا دعائے قنوت میں آمین کہنا ابو داؤد میں موجود ہے مگر یہ عام دعائے قنوت کے متعلق ہے۔ وتروں کی خصوصیت نہیں ۔ وتر بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ وتروں کی دعا بھی دعائے قنوت ہے۔
اعتکاف: [1]
(الف) عبادتِ الٰہی کی نیت سے اپنے کو مسجد میں بند کرنا اعتکاف ہے۔
(ب) اور یہ سنت موکدہ ہے۔
(ج) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان المبارک میں دس روز اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ آخری سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف کرنے والا چونکہ قربِ الٰہی کی طلب میں اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر دیتا ہے اور دنیا کے تمام مشاغل سے علیحدہ ہو جاتا ہے اس لئے وہ تلاوتِ قرآن مجید اور ذِکرِ الٰہی میں جس قدر وقت صرف کرے اور دوسری باتوں سے بچے اسی قدر افضل ہے۔
کن اُمور سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا: [2]
(الف) مسجد گرنے یا زبردستی مسجد سے نکال دیئے جانے یا جان و مال کے خوف سے مسجد سے نکل جانے پر بشرطیکہ فوراً کسی دوسری مسجد میں چلا جائے ان صورتوں میں اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
(ب) علاوہ ازیں مسجد میں سونا (ج) کھانا پینا
[1] (الف) نووی شرح مسلم و حافظ فی الفتح (ب) لحدیث کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَّمَضَانَ (بخاری مسلم) (ج) بخاری، نسائی، ابن ماجہ
[2] (الف) حدیث ابی داؤد لَا یَخْرُجْ لِحَاجَۃٍ اِلَّا لِمَا لَبدَّ مِنْہُ، مبسوط سرخسی (ب) بخاری و ابن ماجہ مبسوط سرخسی جلد ۳ ص ۱۲۶ (ج) بخاری شریف (د) بخاری (ھ) فتح الباری، تحفۃ الاحوذی (د) حدیث ابو داؤد ولَا یَخْرُجْ لِحَاجَۃٍ اِلَّا لِمَا لَابُدَّ مِنْہُ سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ (ز) متفق علیہ (ح) وکذا الغُسْلُ لِلْجَنَابَۃِ اِنْ لَّمْ یُمْکِنْہُ الْاِغْتِسَالُ فِی الْمَسْجِدِ (تحفۃ الاحوزی جلد ۲ ص ۷۲) غسل جنابت اگر مسجد میں ممکن نہ ہو، باہر جائز ہے۔ لحدیث متقدم (د) ابو داؤد (ھ) ماخوذ (بخاری و مسلم)