کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 27
فی الحال ان پانچ احادیث پر اکتفاء کرتا ہوں اور بطور تائید علامہ امیر الصنعانی کی سبل السلام شرح بلوغ المرام سے بحث نقل کرتا ہوں تاکہ مسئلہ کی مزید وضاحت ہو جائے۔ سبل السلام (۱۲۰:۱) میں ہے: ترجمہ: نسائی کی روایت میں ہے۔ ’’الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِفِی الْاَذَانِ الاَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ۔‘‘یعنی الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ صبح کی پہلی اذان میں ہے۔ اس حدیث سے صبح کی مطلق اذانیں (جن میں اس کلمہ کا کہنا آیا ہے) مقید ہو گئی ہیں کہ مراد پہلی اذان فجر ہے۔ ابن ارسلان رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس روایت کو ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ صاحب البدر التمام علامہ مغربی فرماتے ہیں : تثویب (الصلوۃ خیر من النوم) فجر کی پہلی اذان میں ہے کیونکہ وہ سونے والے کو جگانے کے لئے ہے اور اذان ثانی نماز کے وقت ہونے کا اعلان اور نماز کی طرف بلانے کے لئے۔ نسائی کے لفظ اس کی سنن کبریٰ میں ابو جعفر کے طریق سے یوں ہیں : کُنْتُ اُؤَذِّنُ ل،رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَکُنْتُ اَقُوْلُ فِے اَذَانِ الْفَجْرِ الْاَوَّلِ حَیَّ علٰی الصَّلوٰۃِ، حَیَّ عَلٰی الْفَلَاحِ، الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ، الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے (ماخوذ من تخریج الزرکشی لاحادیث الرافعی) اسی کی مانند السنن الکبریٰ للبیہقی میں ابی محذورہ سے حدیث ہے۔ اِنَّہ کَانَ یُثَوِّبُ فِی الْاَذَانِ الْاَوَّلِ مِنَ الصُّبْحِ بِاَمْرِہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ابو محذورہ صبح کی پہلی اذان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تثویب کہتے تھے۔ واضح رہے کہ سل السلام کی یہ عبارت کہ اس سے مطلق احادیث صبح مقید ہو گئی ہیں ۔ اور اذانِ صبح کا مطلب اذان اول ہے ابو محدوزہ کی احادیث کے متعلق صحیح ہے۔ جن میں سے بعض میں صرف اذانِ فجر کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں اذان فجر اول کا ذِکر ہے اس لئے مطلق احادیث ابی محذورہ مقید احادیث پر محمول ہوں گی۔ باقی وہ احادیث جن میں اس کلمہ کا اذانِ فجر میں کہنا آیا ہے یہ اس صورت میں ہے جب صرف صبح کی ایک اذان کہی گئی ہو۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم۔