کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 25
کیلئے کہا جاتا ہے۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ پہلی اذان صبح کی نماز کے اول وقت پڑھنے کے لئے صبح صادق سے پہلے کہی جاتی ہے تاکہ نیند سے اُٹھ کر ضروری جملہ اُمور سے فارغ ہو جائے اور پھر اذان ثانی کے سنتے ہی نماز کی طرف چلا آئے۔[1] اس مناسبت سے الصلوۃ خیر من النوم پہلی اذان میں ہے جس وقت وہ کہی جاتی ہو اور اگر ایک ہی اذان کہی جائے کیونکہ اسی سے یہ مقصد (نیند سے جگانا) بھی حاصل کرنا ہوتا ہے۔
الصلوۃ خیر من النوم کا پہلی اذان میں ہونے کا ثبوت احادیث سے ملاحظہ فرمائیں :
(1)ابو داؤد مع عون المعبود (۱۹۱:۱) میں ہے:
’’عَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم نَحْوَ ھٰذَا الْخَبَرِ وَفِیْہِ الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنْ النَّوْمِ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فِی الْاُوْلٰی مِنَ الصُّبْح۔‘‘
’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنْ النَّوْمِ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ صبح کی پہلی اذان میں ہے۔[2]
(2)نسائی (۷۴:۱) میں ہے:
عَنْ اَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ قَالَ ۔۔۔۔ قَالَ ۔۔۔۔ حَیَّ عَلٰی الْفَلَاحِ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فِیْ الْاُوْلٰی مِنَ الصُّبْحِ۔ [3]
[1] اس سنت کو چھوڑ کر ہمارے ہاں صبح کی اذان اور نماز کا وقفہ زیادہ رکھا گیا ہے۔ خصوصاً مدارس میں جہاں طلبہ بھی مقیم ہوتے ہیں، اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر اس سنت کا سارا سال احیاء کیا جائے تو وقفہ زیادہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ حدیث میں اذان اور نماز کے وقفے کے سلسلہ میں صبح کا باقی نمازوں سے کوئی فرق نہیں آیا اس طرح سے یہ امتیاز بھی ختم ہو جائے گا۔
[2] الفاظ کی شرح عون المعبود (۱۹۱:۱) میں یوں ہے (اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ فِی الْاُوْلٰی) ای فِی الْاَذَانِ لِلصَّلٰوۃِ الْاُوْلٰی (مِنَ الصُّبْحِ) بَیَانٌ لِلّاُوْلٰی۔ تلخیص الجیر (۲۰۲:۱) میں اس حدیث پر یوں تبصرہ ہے: وَصَحَّحَہ ابْنُ خُزَیْمَۃَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ جُریْجٍ الخ۔ یعنی ابن جریج والی حدیث کو امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔
[3] حاشیہ نسائی میں ہے: فِی الْأُوْلٰی مِنَ الصُّبْحِ اَیْ فِیْ الْمُنَادَاۃِ وَفِیْ نُسْخَۃٍ فِیْ الْاَوَّلِ اَیْ فِی النِّدَاءِ الْاَوَّلِ وَالْمُرَادُ الْاَذَانُ دُوْنَ الْاِقَامَۃِ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ۔ ۱۲ س