کتاب: محدث شمارہ 11 - صفحہ 24
لَا یَمْنَعَنَّکُمْ مِنْ سُحُوْرِکُمْ اَذَانُ بِلَالٍ وَّلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِیْلُ (الحدیث) [1] یعنی تمہیں سحری سے اذان بلال اور صبح کاذب نہ روکے۔
علمائے سلف میں سے مالک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ، احمد رحمہ اللہ وغیرہ اس کے اذان فجر ہونے کے قائل ہیں اور نماز کے لئے اسی کو کافی سمجھتے ہیں ۔ صرف اہل الرائے اس کے سحری کے لئے ہونے کے قائل ہیں لیکن اسے اذان کی بجائے دوسرے الفاظ سے ’’اعلان‘‘ بتاتے ہیں جیسا کہ علامہ سروجی رحمہ اللہ نے تاویل کی ہے۔ تیسرا مسلک یہ ہے کہ یہ پہلی اذان فجر کے وقت سے قبل تیاری فجر کے لئے ہے، جس کے بعد وسری اذان صبح صادق کے وقت دی جائے گی۔ ابن حزم رحمہ اللہ اور اہل حدیث کا یہی مسلک ہے۔ [2]
محدثین نے کتب احادیث میں ان احادیث پر جو باب منعقد کئے ہیں ان کا یہ مقصد نہیں کہ وہ پہلی اذان کو سحری کے لئے سمجھتے ہیں بلکہ ان کا مقصد پہلی اذان (اذانِ بلال) سے سحری کا وقت بتانا ہے کہ سحری کا وقت بلال کی اذان کی بجائے ابن ام مکتوم کی اذان تک ہے۔ جن متاخرین نے اس سے تاخیر سحری کا استحباب سمجھا ہے مثلًا مسند احمد کا باب ’’بَابُ وَقْتِ السُّحُوْرِ وَاسْتِحْبَابُ تَاخِیْرِہ‘‘ وہ اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عموماً اس وقت سحری کھاتے تھے۔ علاوہ ازیں تاخیر سحری کا استحباب دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
اب رہا یہ مسئلہ اذان اول رمضان کے ساتھ خاص ہے یا سارا سال ہوتی تھی، سو اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اس کے رمضان سے مختص ہونے کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اول تو احادیث سے اس کی عمومیت ثابت ہے۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھا کرتے تھے۔[3] خواہ اس کا سحری کے لئے ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے پھر بھی رمضان کے ساھ مختص ہونے کیو جہ نہیں ۔ خود اہل رائے جو اس کے فقط اعلان بالفاظ دیگر، سحری کے لئے ہونے کے قائل ہیں جب اس اذان شرعی کی عمومیت یا اسے رمضان کے علاوہ بھی احادیث میں پاتے ہیں تو اس کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ صحابہ نفلی روزے سارا سال رکھا کرتے تھے اس لئے یہ سارا سال ہوتی تھی۔ چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہ اذان تقریباً سارا سال ہی ہوتی تھی۔
اَلصَّلٰوۃُ خَیْر من النَّوْم پہلی اذان میں ہے یا دوسری میں ؟
الصلٰوۃ خیر من النوم کے ترجمہ سے اس کا مقصد واضح ہے کہ یہ نماز کے لئے نیند سے جگانے
[1] مسند احمد، مسلم وغیرہ
[2] تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہدایۃ المجتہد /۱۰۷:۱
[3] عَنِ ابْنِ الْمُسَیَّبِ مُرْسَلًا: اَنَّ بِلَالًا یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَمَنْ اَرَادَ الصَّوْمَ فَلَا یَمْنَعْہُ اَذَانُ بِلَالٌ حَتّٰی یُؤَذِّنْ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ (کنز العمال /۱۱۳:۴)